سوانح
حیات صدر الفاضل بدر المماثل سید محمد نعیم الدین مرادآبادی،از قلم محمد مختار الحیدری۔
حیات صدر الفاضل بدر المماثل۔
از قلم محمد مختار الحیدری
پروردگار عالم نے اپنے دین کی حفاظت و صیانت کے لیے بے شمار علماو مفکرین پیدا کیے، جو اپنی خدا داد صلاحیتوں پر مسلک حق اور دین حنفیت کی خدمت سر انجام دیتے رہے انہیں عظیم شخصیتوں میں صدر الافاضل بدر الاماثل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی بات کا اسم گرامی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
*تاریخی نام: غلام مصطفیٰ*
آپ اسم مبارک: *سید محمد نعیم الدین*
*لقب: اہل السنت والجماعہ آپ کو صدر الفاضل، بدر المماثل، استاذ العلماء لے لقب سے یاد کرتے ہیں*۔
*والد محترم: مولانا سید معین الدین مرادآبادی*
*ولادت باسعادت:۔ ٢١ صفر المظفر / یکم جنوری ١٣٠٠ھ /١٨٨٣ء*
*آپ کے آباؤ اجداد مشہد شریف کے رہنے والے تھے*، اورنگ زیب عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کے عہد مبارک میں مشہد سے آئے اور بڑے جلیل المناصب عہدوں پر فائز رہے، حضرت عالمگیر نے آپ کے اجداد کرام کا بڑا اعزاز و احترام کیا، بڑی بڑی جاگیریں عطا فرمائیں، جو نسلاً بعد نسل اس کا کچھ حصہ آپ کے ورثہ میں بھی آیا، یہ خاندان ہمیشہ علم و فضل کا آفتاب اور علوم و فنون کا ماہتاب رہا ہے، جو عزت و شرف قدر و منزلت اور علم و فضل میں عروج آپ کو حاصل ہوا، اس کی نظیر میدانِ علم کے شہسواروں میں شاذ و نادر ہے۔( حیات صدر الفاضل )
*ابتدائی تعلیم*
صدر الفاضل بدر المماثل علیہ الرحمہ العادل نے آٹھ سال کی عمر میں قراٰنِ پاک حفظ کر لیا اور ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم حضرت علامہ مولانا سید معین الدین نزہت مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی اس کے بعد زانوئے تلمذ تہہ کیا حضرت علامہ مولانا ابوالفضل فضل احمد علیہ الرحمۃ الله احد سے عربی کی کچھ کتب پڑھیں۔
*تکمیل درس نظامی:*
حضرت علامہ مولانا ابوالفضل فضل احمد علیہ الرحمہ نے ان کو ساتھ میں لیکر امام العلماء، جامع المعقول و المنقول حضرت علامہ مفتی سید گل احمد قادری علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے عرض کی: یہ صاحبزادے نہایت ذہین و فطین ہیں، میری آرزو ہے کہ بقیہ درسی کتب آپ سے تکمیل کریں۔ حضرت قبول فرما لیا۔
ان سے بقیہ مختلف علوم وفنون حاصل اسناد حاصل فرمائیں خصوصاً مَنْطِق، فَلْسَفَہ، ریاضی، اُقْلِیْدَس، تَوْقِیْت وہَیْئَت، عَرَبی بَحروفِ غیرمَنْقُوْطَہ، تفسیر، حدیث اور فِقْہ وغیرہ بہت سے مُروَّجہ دَرْسِ نظامی اور غیردَرْسِ نظامی عُلُوم وفُنُون ۔ یوں آپ نے ۱۹ سال کی عمر میں جملہ علوم عقلیہ اور نقلیہ سے فراغت حاصل کی اور ایک سال تک فتادی نویسی کی مشق و ممارست فرمائی، اور ۱۳۲۰ھ میں مدرسہ امدادیہ مرادہ آباد میں جلیل القدر علماء مشایخ کے مقدس ہاتھوں سے صرف ۲۰ سال کی عمر میں دستار فضیلت کے دولت سے نوازے گئے، اس وقت آپ کے والد ماجد *مولانا سید محمد معین الدین نزہت نے دستار بندی کی تاریخ تحریر فرمائی*
*ہے میرے پسر کو طلبہ پر وہ تفضل*
*سیاروں میں رکھتا ہے جو مریخ فضیلت*
*نزہت نعیم الدین کو یہ کہہ کے سنادے*
*دستار فضیلت کی ہے تاریخ فضیلت*
*بیس سال کی عمر میں پہلی تصنیف*
دورانِ طالب علمی صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰه العادل نے صَحافتی طریقے سے تبلیغِ دین کے لیے مختَلِف رسائل و جَرائد میں مَضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مضامین کلکتہ(الھند) کے ’’اَلْہِلال‘‘ اور’’ اَلْبَلاغ‘‘میں شائع ہوتے رہے۔ اِسی دوران آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہ خیال فرمایا کہ مَدَنی آقا صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وَاٰلہٖ وَسلَّم کے ’’علمِ غیب‘‘ پر ایک ایسی جامِع کتاب ہونی چاہیے، جس سے مُعْتَرِضِین کے تمام اَوہام وشُکوک اور باطل نظریات کا شافی و وافی مُہَذَّب پیرائے میں جواب ہو ۔ چُنانچِہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ایک مستقِل کتاب لکھنی شروع کی ۔ اُس وقت چُونکہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس ایسا جامِع کُتُب خانہ نہ تھا کہ جس میں ہر قسم کی کتابیں موجود ہوتیں ، لہٰذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مصطَفٰے آباد (رامپور ، ہند) کے کُتُب خانے کی طرف رُجوع کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سفر کر کے ’’ مصطَفٰے آباد‘‘ جاتے، وہاں کے کُتُب خانے سے حوالہ جات دیکھ کر آتے اور مُراد آباد میں کتاب لکھتے۔جب بیس سال کی عمر میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی دستار بندی ہوئی تو وہ کتاب بھی مکمَّل ہوگئی جس کانام ’’ اَلْکَلِمَۃُ الْعُلْیَا لِاِعْلَائِ عِلْمِ الْمُصْطَفٰی‘‘ ہے۔
*اعلٰی حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کا خِراجِ تحسین*
*جب یہ کتاب شائع ہوئی توحاجی محمد اشرف شاذلی علیہ رحمۃ اللّٰہ الولی اس کتاب کو لے کر اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ کی خدمت میں حاضِر ہوئے۔ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃُ ربِّ العِزَّۃ نے اس کو مُلاحَظہ کرکے فرمایا : ’’ مَا شَآءَ اللّٰہ بڑی عمدہ نفیس کتاب ہے، یہ نو عمری اور اتنے اَحسن دلائل کے ساتھ اتنی بلند کتاب مُصَنِّف کے ہونہار ہونے پر دال ہے*۔‘‘ ( تذکرہ صدر الفاضل صفحہ 8 /حیات صدر الفاضل صفحہ 46)
*سند حدیث:*
اور بَہُت سے سَلاسِلِ احادیث وعُلومِ اسلامیہ کی سَنَدیں بھی تَفویض ہوئیں اسی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا سلسلۂ سندِحدیث قُدْوَۃُ الْفُضَلَاء، عُمْدَۃُ المُحَقِّقِین حضرتِ مولانا سیدمحمدمکّی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی خطیب و مدرِّسِ مسجدُالحرام کے ذریعے مُحَشِّیٔ دُرِّمختار خاتَمُ المُحَقِّقِیْن سیداحمدطَحْطَاوِی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی سے ملتاہے جن کی سندعرب وعجم میں مشہورہے۔( تذکرہ صدر الفاضل صفحہ 4)
*فن حدیث*
علم و فن حدیث کی تعلیم میں تو آپ مشہور خاص و عام تھے، ملک کے تمام فضلاء اجلاء معترف تھے کہ جس طرح حدیث کی تعلیم آپ دیتے ہیں ان کے کانوں نے کبھی اس کی سماعت نہیں کی ذالک فضل الله يؤتيه من يشاء" اس جامعیت سے مختصر الفاظ بیان فرماتے تھے کہ مفہوم ذہن کی گہرائیوں میں اتر جاتا تھا۔
*مناظرہ*:
حضرت کو میدان مناظرہ میں ید طولی حاصل تھا یہی وجہ تھی کہ امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قادری علیہ الرحمہ اکثر و بیشتر مناظرہ کے لیے آپ کو بھیجتے تھے۔ آپ کا مناظرہ فقط بد مذہب پر ہی منحصر نہیں تھا بلکہ آپ کافروں سے بھی کیا ہے یعنی عیسائی، آریہ، روافض، خوارج ، قادیانی، وہابی، غیر مقلدین، منکرین حدیث وغیرہ سب سے مناظرے کیے۔ آپ کے مناظرے کا خاص وصف یہ تھا کہ آپ مخالفی کا اس قدر تعاقب فرماتے کہ یا تو ہار مان لیتے یا میدان میں آنے کی جسارت نہیں کرتے۔
*علم التوقيت*
علم التوقیت جسے علم ہیئت بھی کہتے ہیں، اس میں آپ کو جو خداداد مہارت تامہ حاصل تھی وہ بے مثل تھی۔ آپ نے متعدد کرہ فلکی تیار کرائے جس میں سبعہ ثوابت اور سیارگان کو کرہ میں چاندی کے نقطوں سے واضح فرمایا۔ جب آپ علم ہیئت کی تعلیم دیتے تھے تو وہ کرہ سامنے رکھ کر طلباء کو آسمان کی سیر کرا دیتے تھے۔ یہ آسمانی کرہ آپ کی خاص یادگاریں ہیں جن سے آپ کی عظیم شخصیت کا پتا چل سکتا ہے۔ اس فن کے کثیر استادوں کا فیصلہ ہے کہ اتنا جامع اور کامل کرہ آج تک دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا، آپ نے ایسے کرے متعدد بنائے، چھوٹے بھی اور بڑے بھی، اب سے تقریباً چالیس سال پہلے ایک کرنے کی تیاری پر دو ڈھائی سو روپے خرچ آتے تھے جو اہل فن فورا ہی سر آنکھوں پر لگا کر حاصل کر لیتے تھے۔
علم التوقیت کے سلسلہ میں آپ سے جس صاحب نے مکمل اکتساب فیض کیا، وہ مولانا الحاج محمد ظہور صاحب نعیمی مراد آبادی ہیں جن کو علم التوقیت میں اتنا ملکہ حاصل ہو گیا ہے کہ آج پاک و ہند میں حاجی صاحب موصوف کا ثانی نہیں ہے۔ حاجی صاحب
موصوف نے ”عرض البلد " کے درجوں سے لوکل ٹائم کے تقریبا تمام دنیا کے نقشے تیار کر لیے ہیں۔ حاجی صاحب موصوف سے یا ادارہ نعیمیہ رضویہ سواد اعظم لاہور سے دنیا کے جس مقام کے نماز روزے کے اوقات کے نقشے درکار ہو، اس مقام کا عرض البلد طول البلد لکھ کر وہاں جو ٹائم مروج ہوگرنج کے وقت سے فرق نکل کر حاصل کر لیتے ہیں۔ خوبی اس کی یہ ہے کہ تمام نقشے حضرت قدس سرہ کی حیات مبارکہ ہی میں مرتب کر کے حضرت قدس سرہ سے تصدیق کرا لیے تھے ( حیات صدر الفاضل 53)
*پیر و مرشد*:
صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل پیر کی جُستُجو میں ’’ پیلی بھیت ‘‘حضرت شاہ جی محمد شیر میاں صاحب علیہ رحمۃ اللّٰہ الواھِب کی خدمت میں حاضِر ہوئے۔حضرت شاہ صاحِب علیہ رحمۃ اللّٰہ الواھِب بڑی مَحبَّت و کرم سے پیش آئے اور اس سے پہلے کہ صَدْرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل کچھ کہیں ، فرمایا : ’’ میاں ! مُراد آباد میں مولانا سیّدمحمد گل قادِرِی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی بڑی اچّھی صورت ہیں ، میں مُراد آباد جاتا ہوں تو اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں ، آپ جس اِرادے سے آئے ہیں آپ کا حصہ وہیں ہے۔ ‘‘ چنانچِہ صَدرُ الافاضِل علیہ رحمۃ اللّٰہ العادِل مُراد آباد واپس آئے تو حضرتِ مولاناسیّد محمد گل قادری علیہ رحمۃ اللّٰہ الھادی نے دیکھتے ہی ارشادفرمایا : ’’شاہ جی !میاں صاحب علیہ رحمۃ اللّٰہ الواھِب کے ہاں ہو آئے، اچھا !پرسوں جمعہ ہے، نمازِ فجر کے بعد آئیے تو آپ کا جو حصّہ ہے، عطا کیا جائے گا۔ ‘‘ تیسرے روز جمعہ کو بعد نمازِ فجر حصرت مولانا شاہ محمد گل علیہ رحمۃ اللّٰہ العدل نے قادِری سلسلے میں بیعت فرمایااور جو حصّہ تھا عطا کیا۔( حیات صدر الفاضل صفحہ 24 )
*اعلیٰ حضرت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی پہلی زیارت* :
حضرت صدرالافاضل خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے ، آپ کی قابلیت کے سبب بعد فراغت ہی کئی علوم وفنون میں آپ کی بالا دستی اور علم وفضل کی شہرت ہونے لگی۔ درایں اثنا جودھ پور کے ایک بد عقیدہ دَرِیْدَہ دہن و گستاخ قلم مولوی جو سنی علماء کے مضامین کے رد میں مقالے لکھا کرتا اور اپنے خُبْثِ باطن کا اظہار کرتا ، اس نے اعلیٰ حضرت ، امام اہلسنت ، مولانااحمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کے خلاف ایک نہایت نامعقول ورذیل مضمون لکھ کر اخبار ’’نظام الملک‘‘میں شائع کروادیا۔ چنانچہ ضَیْغَم صحرائے ملت ، استاذ العلماء ، سندالفضلاء ، حضور سیدی صدرالافاضل نے اس قسمت کے مارے ، خباثت کے ہرکارے جودھ پوری مولوی کی تحریر کا نہایت شوخ وطَرَح دار ، دندان شکن اور مُسکِت رد لکھااوراسی اخبار ’’نظام الملک ‘‘میں شائع کرواکر منہ توڑ جواب دیا۔ امام اہل سنت کی خدمت بابرکت میں صدر الافاضل کے اس جرأت مندانہ اقدام کے بارے میں عرض کیا گیا اور نظام الملک اخبار بھی خدمت میں پیش کیا گیا۔ جسے آپ نے ملاحظہ فرما کر صدر الافاضل کی قابلیت کی تعریف فرمائی اور آپ کے بریلی تشریف لانے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ طلب اعلیٰ حضرت پر حضرت صدر الافاضل امام اہل سنت کی بارگاہِ فیض رسا ں میں حاضر ہوئے۔ اعلیٰ حضرت نے اہل سنت کے موقف کی تائید پر آپ کو بے پناہ دعاؤں اور انتہائی محبت وشفقت سے نوازا۔ اس کے بعد صدر الافاضل کو آستانہ اعلیٰ حضرت سے ایک خاص قلبی لگاؤ ہوگیا اور وقتاً فوقتاً آپ اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضری کا شرف حاصل کرتے بلکہ جب بھی آپ مراد آباد میں ہوتے خصوصیت کے ساتھ اعلیٰ حضرت کی خدمت اقدس میں ہر پیر اور جمعرات کو حاضری کی سعادت سے بہرہ مند ہوتے۔ سند ِفراغت پانے کے بعد آپ نے علم ِغیب ِمصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے موضوع پر ایک جامع اور مدلل کتاب ’’ الکلمۃ العلیاء لاعلاء علم المصطفٰی‘‘ تحریر فرمائی جس کا منکرین آج تک جواب نہ لکھ سکے اور ان شآء اللہ عزوجل قیامت تک نہ لکھ سکیں گے ، جب اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی خدمت بابرکت میں یہ کتاب پیش کی گئی تو آپ نے بنظر عَمِیْق مطالعہ فرمایااور ارشاد فرمایا : ماشآء اللہ بڑی کار آمد اور عمدہ کتاب ہے ، عبارت شگفتہ ، مضامین دلائل سے بھرے ہوئے ، یہ نوعمری اور اتنے احسن براہین کے ساتھ اتنی بلند پایہ کتاب مولانا موصوف کے ہونہار ہونے پر دال ہے۔ بہرحال اعلیٰ حضرت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے صدر الافاضل کا رشتہ محبت و مُوَدَّت اس قدر مضبوط ہوگیا کہ آپ کو اعلیٰ حضرت نے اپنا معتمد اور اپنے بعض کاموں کا مختار بنادیااور جہاں فاضل بریلوی اپنی شرعی ذمہ دار یوں کی وجہ سے خود شرکت نہ فرماتے وہاں صدر الافاضل آپ کی نمائندگی فرماتے۔
*تصنیفات وتالیفات* :
ماضی قریب کے جن باعظمت و تقدس مآب شخصیتوں کے حوالے سے قلم متعارف ہوا۔ انہی میں سے حضور صدر الفاضل بدر المماثل مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی کا کی ذات ستودہ صفات سر فہرست نظر آتی ہے ۔ حضرت نے مختلف علوم و فنون پر تقریباً دودرجن کتابیں بطور یاد گار چھوڑی ہیں۔ بلا شک و ریب تحریر و تصنیف کئی صدیوں تک مؤثر ذریعہ ابلاغ، نہایت مضبوط و مستحکم تا دیر حیات رہنے والے شئے ہیں۔ یقیناً تصنیف ایسا میدان ہے جو اس کو صدیوں تک زندہ و جاوید رکھتی ہیں۔
حضرت نے رسائل و کتب مندرجہ ذیل ہیں
{۱} تفسیر خزائن العرفان
{۲} نعیم البیان فی تفسیر القرآن
{۳} الکلمۃ العلیا لاعلاء علم المصطفیٰ
{۴} اطیب البیان در رد تقویۃ الایمان
{۵} مظالم نجدیہ برمقابر قدسیہ
{۶} اسواط العذاب علی قوامع القباب
{۷} آداب الاخیار
{۸} سوانح کربلا
{۹} سیرت صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم
{۱۰} التحقیقات لدفع التلبیسات
{۱۱} ارشاد الانام فی محفل لمولود والقیام
{۱۲} کتاب العقائد
{۱۳} زاد الحرمین
{۱۴} الموالات
{۱۵} گلبن غریب نواز
{۱۶} شرح شرح مائۃ عامل
{۱۷} پراچین کال
{۱۸} فن سپاہ گری
{۱۹} شرح بخاری (نامکمل غیر مطبوع)
{۲۰} شرح قطبی (نامکمل غیر مطبوع)
{۲۱} ریاض نعیم (مجموعہ کلام)
{۲۲} کشف الحجاب عن مسائل ایصال ثواب
{۲۳} فرائد النور فی جرائد القبور
*وفات* :
۱۸ ذوالحجہ ۱۳۶۷ھ مطابق ۲۳ اکتوبر ۱۹۴۸ء بروز جمعۃ المبارک صدر الافاضل نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ وقت وصال ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ، کلمہ طیبہ کا ورد جاری تھا ، پیشانی اقدس اور چہرہ مبارک پر بے حد پسینہ آنے لگا ، ازخود قبلہ رخ ہوکر دستہائے پاک اور قدمہائے ناز کو سیدھا کرلیا ، اب آواز دھیرے دھیرے مدھم ہونے لگی ، شاہزادگان نے کان لگا کر سنا تو زبان پر کلمہ طیبہ جاری ہے ، دفعتاً سینہ اقدس پر نور کا لَمْعہ محسوس ہوا اور ۱۲ بجکر ۲۰ منٹ پر اہل سنت کا یہ سالار اپنے خالق حقیقی سے جاملا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ آپ کی تدفین جامعہ نعیمیہ کی مسجد کے بائیں گوشے میں کی گئی آج بھی آپ سے اکتساب فیض کا سلسلہ جاری ہے اورتاقیامت جاری رہے گا ان شآء اللہ عزوجل ۔
،
0 Comments: