تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت
*تعلیم و تربیت کی ضرورت و اہمیت*
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور تم میں سے ہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا پس شہر کا حکمران لوگوں پرحاکم ہے اس سے اس کے ماتحت لوگو ں کے بارے میں پوچھا جائے گا اور مرد اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی بیوی کے بارے میں اور ان(غلام لونڈیوں ) کے بارے میں پوچھا جائے گاجن کا وہ مالک ہے۔
( الأدب المفرد، ج:۱، ص:۸۱، الحدیث:۲۰۶)
مذکورہ بالا حدیث میں اگرچہ ہر بڑے کو اپنے ماتحت کو علم سکھانے کا فرمایا ہے لیکن والدین پر اپنی اولاد کی ذمہ داری چوں کہ سب سے زیادہ ہے اس لیے ان کو بطورِ خاص تاکید فرمائی گئی ہے ،
چنانچہ حضرت عثمان الحاطبی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَاکو سنا کہ آپ ایک شخص کو فرما رہے تھے: أَدِّبِ ابْنَكَ، فَإِنَّكَ مَسْئُولٌ عَنْ وَلَدِكَ، مَاذَا أَدَّبْتَهُ؟ وَمَاذَا عَلَّمْتَهُ؟ وَأَنَّهُ مَسْئُولٌ عَنْ بِرِّكَ وَطَوَاعِيَتِهِ لَكَ.
ترجمہ :اپنے بیٹے کو ادب سکھاؤ، بے شک تم سے تمہارے لڑکے کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تم نے اسے سکھایا اور تمہارے اس بیٹے سے تمہاری فرمانبرداری اور اطاعت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
( السنن الکبریٰ، ج:۳،ص:۱۲۰، الحدیث:۵۰۹۸)
اس حدیث پر والدین کو خصوصاً غور کرنا چاہیے کیونکہ قیامت کے دن اولاد کے بارے میں یہی گرفت میں آئیں گے ،اگر صرف والدین ہی اپنی اولاد کی دینی تربیت و تعلیم کی طرف بھرپور توجہ دے لیں تو علمِ دین سے دوری کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
مگر افسوس کہ دُنْیَوی علوم کے سکھانے میں تو والدین ہرقسم کی تکلیف گوارا کرلیں گے ،اسکول کی بھاری فیس بھی دیں گے، کتابیں بھی خرید کر دیں گے اور نجانے کیاکیا کریں گے لیکن علمِ دین جو ان سب کے مقابلے میں ضروری اور مفید ہے اس کے بارے میں کچھ بھی توجہ نہیں دیں گے، بلکہ بعض ایسے بد قسمت والدین کو دیکھا ہے کہ اگر اولاد دین اور علمِ دین کی طرف راغب ہوتی ہے تو انہیں جبراً منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کیا رکھا ہے ۔
ہم دنیوی علم کی اہمیت و ضرورت کا انکار نہیں کرتے لیکن یہ دینی علم کے بعد ہے اور والدین کا یہ کہنا کہ علمِ دین میں رکھا ہی کیا ہے؟ یہ بالکل غلط جملہ ہے۔
اول تو یہ جملہ ہی کفریہ ہے کہ اس میں علمِ دین کی تحقیر ہے۔
دوم اسی پر غور کرلیں کہ علمِ دین سیکھنا اور سکھانا افضل ترین عبادت، انبیاءِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وراثت، دنیا و آخرت کی خیر خواہی اور قبروحشر کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔آج نہیں تو کل جب حساب کے لئے بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہونا پڑے گااس وقت پتہ چلے گا کہ علمِ دین کیا ہے؟
بلکہ صرف اسی بات پر غور کرلیں کہ مرتے وقت آج تک آپ نے کسی شخص کو دیکھا ہے کہ جس کو دنیا کا علم حاصل نہ کرنے پر افسوس ہورہا ہو ۔ہاں علمِ دین حاصل نہ کرنے ، دینی راہ پر نہ چلنے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے کام نہ کرنے پر افسوس کرنے والے آپ کو ہزاروں ملیں گے اور یونہی مرنے کے بعد ایسا کوئی شخص نہ ہوگا جسے ڈاکٹری نہ سیکھنے پر، انجینئر نہ بننے پر، سائنسدان نہ بننے پر افسوس ہو رہا ہو البتہ علمِ دین نہ سیکھنے پر افسوس کرنے والے بہت ہوں گے۔
بلکہ خود حدیث پاک میں موجود ہے کہ کل قیامت کے دن جن آدمیوں کو سب سے زیادہ حسرت ہوگی ان میں ایک وہ ہے جس کو دنیا میں علم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اس نے علم حاصل نہ کیا۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل ِسلیم دے اور انہیں علمِ دین کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،اٰمین۔
0 Comments: