خواجہ سرا (ہجڑا) اسلام کی نظر میں
___________________________________
از : عمران رضا عطاری مدنی بنارسی
شعبہ تخصص فی الحدیث ناگپور
___________________________________
خواجہ سراوں کے حقوق
چہار جانب نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی زمانہ ہجڑوں کو اہمیت دینا تو دور کی ان کو زمانے کا ناسور سمجھا جاتا ہے ،پھر ان کو تکلیف دینا ، برا بھلا کہنا وغیرہ لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں حالاں کہ قرآن پاک و حدیث نے ہمیں اس بات کا پابند کیا ہے کہ کسی مسلمان کو ایذا نہ دی جائے۔حتی کہ ایک خنثٰی کا مضمون پڑھنے کو ملا جس میں اس نے یہ درد بھرے انداز میں بیان کیا کہ گھر ہو یا باہر ، ہر طرف اسے ذلت و رسوائی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان سے خودکشی کرنے کا فیصلہ کرلیا ……. الخ
یہ ماحول اس وجہ سے بن رہا ہے کہ لوگوں نے تعلمات اسلام پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے وگرنہ اسلام نے کب اس بات کی اجازت دی ہے کہ دوسوں کی عزتیں پامال کی جائیں ، اسلام نے تو ایک دوسرے تکلیف دینے ، مذاق اڑانے اور ایک دوسرے پر ہنسنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
لیکن یہاں قابل غور بات یہ بھی یہ ہے موجودہ دور میں جو ہجڑے پائے جاتے ہیں انھوں نے ایسی صفاتِ بد اختیار کرلی ہیں جن کی وجہ سے لوگ ان کو برا بھلا کہتے ہیں مثلاً بے حیائی کرنا، لوگوں سے زبدستی پیسا مانگنا وغیرہ ۔ شاید یہ لوگ ان بری عادات کو چھوڑ دیں تو لوگ بھی ان کو برا بھلا کہنا چھوڑ دیں گے۔ بہر حال اسلام نے ہجڑوں کو حقوق دیے ہیں، ان کو باجماعت نماز کے لیے صف میں کھڑا ہونے کا حکم بیان کیا، ان کی عزت ِ نفس کا احترام کرنے کا حک دیا ، انتقال کرجائیں تو ان کی تجہیز و تکفین ، نماز جنازہ کا حکم ارشاد فرمایا ۔ دین اسلام نے جہاں مرد و عورت کے لیے میراث کا حصہ مقرر فرمایا ہے وہیں خنثٰی کہ وہ طبقہ جسے لوگ بالکل نظر انداز کرتے ہیں بلکہ جہاں بیٹیوں کو کچھ نہیں دیا جاتا ،وہاں اسلام نے کئی صورتوں میں ان (خنثٰی) کا بھی حصہ بیان فرمایا کہ جس کا بیٹی بیٹا ہونا کچھ نہیں معلوم۔ ہم چیلنج کرتے ہیں دنیا کے مذاہب کو کہ دکھائیں اپنی کسی مذہبی کتاب میں یہ سب حقوق۔اور ہر گز نہیں دکھا سکیں گے۔
بعض جگہ خنثی کے انتقال کے بعد التزاماً اس کو رات میں ہی دفن کرتے ہیں ، اس طرح اس کے جنازے کو چپل اور دیگر اشیا سے اس نیت سے مارتے ہیں کہ اس کے گناہ کم ہو کائیں۔ لیکن یاد رہے ہمارے پیارے دین اسلام نے کہیں پر یہ قید نہیں لگائی ہے کہ ان کا جنازہ رات میں پڑھا جائے، ان کو رات میں دفن کیا جائے بلکہ جو حقِ میت ایک عام انسان کا ہے وہی حق خنثٰی کا بھی ہے۔
اسی طرح مذکورہ دوسری روش کے خنثٰی کے مرنے کے بعد اسے مارنا (استغفر اللہ ) اس کی تو اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے کیوں کہ مرنے کے بعد روح کا جسم سے تعلق باقی ہوتا ہے اسی وجہ سے علما ے کرام نے فرمایا کہ میت کو غسل میں نرمی و آسانی سے دی جائے تاکہ اسے تکلیف نہ ہو ، اب ذرا سوچیے کہ جو لوگ مرنے کے بعد میت کو ماریں ، اس سے کرنی تکلیف ہوگا۔ یقیناً یہ ناجائز و حرام اور درندہ صفت کام ہے۔
0 Comments: