Headlines
Loading...
کیا جانوروں کو ذبح کرنا ان پر ظلم ہے

کیا جانوروں کو ذبح کرنا ان پر ظلم ہے

کیا جانوروں کو ذبح کرنا ان پر ظلم ہے رد شبہات محمد عارف رضا مدنی جانور کو ذبح کرنا غیر فطری عمل ہے قدرت نے اسے زندگی دی ہے تو انسانوں کو کوئی حق نہیں

 *کیا جانوروں کو ذبح کرنا ان پر ظلم ہے*

✒️🖇️ : *محمد عارف رضا مدنی* 

_______________________

    *سوال* 

جانور کو ذبح کرنا غیر فطری عمل ہے قدرت نے اسے زندگی دی ہے تو انسانوں کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ان کی زندگی کو ختم کر دے 

 *الجواب بعون الملک الوھاب* 

جانوروں کے ذبح کے عمل کو غیر فطری اور ظلم قرار دینا حکمت الہی سے ناواقفیت کی دلیل ہے اس کو ہم درج ذیل مقدموں میں بیان کریں گے 

(1) جانور دو طرح کے ہیں (1) جو عقل و شعور رکھنے والے یا طاقتور ہیں یہ اپنی طاقت و قوت اور اپنی چالاکی کے ذریعے اپنی غذا حاصل کر لیتے ہیں جیسے شیر چیتا کتے بلیاں وغیرہ یہ جانور اپنی غذا حاصل کرنے میں انسانوں کے محتاج نہیں نیز یہ اپنی حفاظت خود کر لیتے ہیں یہ اپنی حفاظت میں دوسروں کے محتاج نہیں ہیں (2) وہ جانور جو نہ تو طاقت و قوت رکھتے ہیں اور نہ ہی عقل و شعور جس کے ذریعے اپنا رزق حاصل کر سکیں بلکہ ان کا رزق انسانوں پر منحصر ہے جیسے کہ بکری بہنس وغیرہ نیز یہ اپنی حفاظت میں بھی انسانوں کے محتاج ہیں

(2) انسان عمومی طور پر مفاد پرست واقع ہوا ہے وہ ہر چیز میں اپنا فائدہ دیکھتا ہے اگر اس کا فائدہ ہو تو وہ کام کرتا ہے اور اگر اس کا فائدہ نہ ہو تو وہ کام نہیں کرتا ہے ، بیع و شراء کاروبار بزنس فلاحی کام عبادت الغرض انسان کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی غرض اور فائدہ وابستہ ہے اگر کوئی فائدہ نہ ہو تو عبث ( فضول اور لغو کام کرنا ) لازم آئے گا اور ایک عاقل و بالغ سے عبث کا جان بوجھ کر ارتکاب نا ممکن ہے۔

(3) اگر دقیق نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اللہ پاک نے عمومی طور پر ان جانوروں کے ذبح کی اجازت دی ہے جو اپنا رزق خود سے حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی حفاظت کر سکتے ہیں بلکہ وہ اپنے رزق کے حصول اور اپنی حفاظت میں انسانوں کے محتاج ہیں جیسے کہ بکری بھیڑ گائے بھینس بیل وغیرہ  

(4) اگر مذکورہ بالا جانوروں کے ذبح کی اجازت نہیں ہوتی تو انسان ان کو کبھی نہیں پالتا یوں ان کی نسل ختم ہو جاتی کیونکہ مذکورہ بالا جانوروں سے تین بڑے منافع وابستہ ہیں حمل و نقل (transport)، (2) دودھ(milk) اور (3) گوشت(meat) ، ٹرانسپورٹ کے دیگر بہتر ذرائع ہونے کے سبب حمل و نقل کا منفعت تقریبا ختم ہو چکا ہے اگر ذبح کی ممانعت کر دی جائے تو ایک ہی منفعت باقی رہے گا اور وہ ہے دودھ اور دودھ ایسا سبب نہیں ہے جو انسانوں کو مذکورہ جانوروں کو پالنے پر ابھارے ۔

(5) بکری میں دودھ بالکل قلیل مقدار میں ہوتا ہے جس سے ایک انسان بھی شکم سیر نہیں ہو سکتا اور گائے بھینس وغیرہ میں دودھ اگرچہ وافر مقدار میں ہوتا ہے لیکن یہ مقدار اس بات کے لیے ناکافی ہے کہ انسان 30 40 ہزار کا جانور خرید کر لائے دن بھر محنت کر کے اسے چارہ دے اور اس کی حفاظت کا انتظام کرے، ایک گائے میں اوسطاً روزانہ سات آٹھ لیٹر ہی دودھ حاصل ہو پاتا ہے جس کی فی زمانہ قیمت پانچ سو تک پہنچتی ہے ظاہر سی بات ہے کہ دودھ کی یہ مقدار روزانہ کے دیکھ بھال اور اس کے دانہ پانی کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے ، یہ اس بات کے لئے ناکافی ہے کہ انسان ان کو پالے،اگر دودھ کو ایک سبب مان بھی لیا جائے جیسا کہ بڑی بڑی ڈیریاں اس کا انتظام کرتی ہیں ،تو عرض یہ ہے کہ یہ منفعت صرف مادہ جانوروں سے میسر ہوگی ، اور مادہ بھی ایک وقت کے بعد بچے پیدا کرنے اور دودھ دینے سے محروم ہو جاتی ہے لہذا اس کے بعد عقلا ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی 

لہذا مسئلہ پھر وہی منفعت پر لوٹ آئے گا اور ان کو پالنے میں انسانوں پر یکطرفہ محنت پڑے گی اور اس کے لئے ان جانوروں کو پالنا مشکل ہوگا۔

 *خلاصہ کلام یہ ہے کہ نقل و حمل دودھ اور گوشت میں سے فقط دودھ کے لیے بکری گائے بھینس وغیرہ کو پالنا انسان کے لیے مشکل معاملہ ہے نیز بیل بھینسے سے نقل و حمل ختم ہو جانے کے سبب انسانوں کا انہیں پالنا دشوار ہے جس سے ان کا نسل ختم ہو جانے کا امکان ہے* 

اس کی ایک واضح مثال گدھے کی ہے جو فی زمانہ خال خال ہی نظر اتا ہے کیونکہ آج سے چند دہائیوں پہلے تک اس سے حمل و نقل کا کام لیا جاتا تھا بقیہ اس سے نہ تو دودھ مقصود تھا اور نہ ہی گوشت لیکن جب حمل و نقل کے دیگر ذرائع آگئے تو اس کا یہ منفعت ختم ہو گیا نتیجتاً لوگوں نے اسے گھروں سے باہر نکال دیا اور اس کو پالنا چھوڑ دیا آج ان کی نسل ختم ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے اسی طرح خچر ، کا بھی معاملہ ہے

جن علاقوں میں گائے کے گوشت پر پابندی ہیں وہاں کی عمومی صورتحال یہ ہے کہ جانور راستوں چوراہوں میں پڑے رہتے ہیں بیمار ہو جائیں تو کوئی پرسان حال نہیں کسی گاڑی سے ٹکر ہو جائے ، ہاتھ پاؤں ٹوٹ جائے تو راستے کے کنارے پڑے سسک رہے ہوتے ہیں اگر کوئی انسانی ہمدردی میں مرحم پٹی کرا بھی دے تو وہ ان جانور کے ٹھیک ہونے تک ان کے خورد و نوش کا انتظام نہیں کر پاتا ، نتیجتاً چند دنوں میں دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب مر جاتے ہیں 

آئے دن یہ خبر آتی ہے کہ فلاں گو شالہ میں اتنی گائیں دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب مر گئیں ، جو تصویریں سامنے آتی ہیں اس میں گائیں ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل نظر آتی ہیں جو اس بات پر دال ہوتی ہیں کہ ان کے لئے غذا پانی کا معقول بندو بست نہیں ہوا جس کے سبب وہ جاں بحق ہو گئیں 

 *خلاصہ کلام یہ ہوا کہ مذکورہ جانور اپنے خورد و نوش کے حصول میں اور اپنی حفاظت میں انسانوں کے محتاج ہیں نہ تو یہ جنگل میں رہ کر اپنی حفاظت کر سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی آبادی میں رہ کر اپنی غذا حاصل کر سکتے ہیں اور انسان فطرتا مفاد پرست واقع ہوا ہے وہ اپنے نفع کے کام کرتا ہے اور بغیر نفع کے کاموں کو چھوڑ دیتا ہے لہذا لازم ہوا کہ ان جانوروں میں ایسا نفع ہو جس کے سبب انسان ان کو پالے اور ان کی حفاظت کرے تاکہ ان کے نسل باقی رہے اور مذکورہ جانوروں میں تین طرح کے نفع ہیں (1) حمل و نقل (transport)، (2) دودھ(milk) اور (3) گوشت(meat) ٹرانسپورٹ کے نئے ذرائع آنے کے سبب حمل و نقل ان سے ختم ہو چکا ہے اور دودھ ایسا سبب نہیں ہے جس کے لیے انسان ان کو پالنے کی مشقت برداشت کرے لہذا اگر گوشت کو بھی بند کر دیا جائے تو ان جانوروں کی نسل منقطع اور ان کا وجود ختم ہو جائے گا یہاں پر فنا میں ہی بقا کا راز مضمر ہے* 

و اللہ اعلم بالصواب

تاریخ: 08/06/2024 

0 Comments:

MADANI DUNIYA ISLAMIC WRITE