والدین کی حقوق
دین اسلام میں والدین کی اہمیت ،ان کے حقوق کا بالکل واضح اور صاف انداز میں بیان موجود ہے بلکہ اللہ پاک نے اپنی وحدانیت کے ساتھ والدین سے اچھا سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے ، اسلام نے والدین کے حقوق کی پاسداری نہ کرنے کی مذمت بھی بیان کی ہے تاکہ ہر شخص اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرے، ان سے بلند آواز میں بات نہ کرے، ان کی ہر جائز خواہشات اور حکم کو پورا کرنے کی کوشش کرے، جس کام سے منع کریں اس سے باز آجائے، پڑھاپے میں خصوصیت کے ساتھ ان کی خدمت کرنے کا حکم دیا ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا.
ترجمۂ کنز الایمان : اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔
(سورہ بنی اسرائیل:۲۳)
والدین کے متعلق حدیث پاک میں بڑا پیارا اصول بیان فرمایا کہ اللہ کی رضا والدین کی رضا میں ہے، اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔
(شعب الایمان، ج:۱۰، ص:۲۴۶، الحدیث:۷۴۴۵)
معلوم ہوا کہ کوئی بھی ایسا کام جو والدین کی ناراضگی کا سب بنے وہ کام اسلام میں درست نہیں۔
امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے والد کی توہین اور اسے ذلیل کرنے والے کے متعلق ارشاد فرمایا : ایسا شخص بہت سخت گنہگار اور اللہ تعالٰی کے سخت عذاب کا حقدارہے کیوں کہ باپ کی نافرمانی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی ہے اور باپ کی ناراضگی میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی ہے ، اگر والدین راضی ہیں تواسے جنت ملے گی اگر والدین ناراض ہوں تو دوزخ میں جائے گا ۔ لہٰذااُسے چاہئے کہ جلد از جلد والدین کو راضی کرے ورنہ اس کی کوئی فرض و نفل عبادت قبول نہ ہوگی اور مرتے وقت کلمہ نصیب نہ ہونے کا خوف ہے۔
(خلاصہ : والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق، ص:۱۸)
ہمارے پیارے دین اسلام میں ان بات کی رہنمائی بھی موجود ہے کہ والدین کی وفات کے بعد ان کیا حقوق ہیں ؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ان کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
(۱)ان کی موت کے بعد غسل، کفن ، دفن اور نماز کے معاملات میں ، سنتوں اور مستحبات کا خیال رکھے ۔
(۲) ان کے لیے دعا و استغفار کرتا رہے ۔
(۳)صدقہ، خیرات اور نیکیاں کرکے ان کا ثواب والدین کو پہنچائے ۔
(۴)ان پر قرض ہوتو اس کی ادائیگی میں جلدی کرے ۔
(۵) ان پر کوئی فرض عبادت رہ گئی ہو تو کوشش کرکے اس کی ادائیگی کرے مثلاً نماز و روزہ ان کے ذمہ باقی ہو تو اس کا کفارہ(فِدیہ) دے ۔ (۶)تہائی مال سے زائد مال میں ان کی جائز وصیت کو پورا کرنے کی کوشش کرے ۔
(۷)ان کی قَسم ان کی وفات کے بعد بھی سچی رکھے مثلاً جن کاموں سے ان کی زندگی میں باز رہتا تھا بعدِ وفات بھی رُکا رہے ۔
(۸) ہر جمعہ ان کی قبر کی زیارت کو جائے اور وہاں تلاوت قرآن کرے ۔
(۹)ان کے رشتہ داروں کے ساتھ عمر بھر نیک سلوک کرے ۔
(۱۰)ان کے دوستوں کا ہمیشہ ادب واحترم کرے ۔
(۱۱)کبھی کسی کے والدین کو بُرا کہہ کر اپنے والدین کو بُرانہ کہلوائے۔
(۱۲)اور سب سے بڑا حق یہ ہے کہ گناہ کرکے قبر میں ان کو تکلیف نہ پہنچائے ۔
الحاصل! والدین کے انتقال کے بعد ان کے حقوق کی اس قدر تفصیل سے بخوبی پتا چل جاتا ہے کہ دینِ اسلام میں والدین کی وفات کے بعد بھی ان کی قدر و منزلت اور مقام بہت بلند و بالا ہے ۔
(خلاصہ :والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق، ص:۲۱)
0 Comments: