ask-mufti
مفتی محمد ساجد عطاری مدنی
حضور ﷺ کے امی ہونے کا معنی
بے سایہ و سائبان عالم
عام کسی بندے کو جب ”اُمی“ کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ لیکن ہمارے نبی ایسے ”اُمی“ ہیں جو معلِم ِکائنات ہیں۔ جس جس کو پڑھنا لکھنا یا علم کا ایک قطرہ بھی ملاتو حضور کے قدموں کا صدقہ ملا۔
شیخ عبد العزیز دباغ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے کہ:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےرسم الخط اور لکھنے کے طور طریقے کسی انسان سے نہیں سیکھے بلکہ رب رحمن نے آپ کو سکھایا ہے۔اور نہ صرف لکھنا پڑھنا بلکہ وہ علوم عطا فرمائے جس کا کوئی انسان اندازہ بھی نہیں کر سکتا...۔(اَلرَّحْمٰنُۙ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ۔۔۔۔رحمٰن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا ۔)
اور حضور کی امت میں ہونے والے بعض اولیاء کو اللہ نے یہ شان عطا فرمائی ہے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک جتنی امتیں گزری ان سب امتوں کی زبانیں اور ان زبانوں کو لکھنے کا طرز بخوبی جانتے ہیں ۔ اور اولیاء کو یہ سب کچھ حضور کے نورکی برکت سے ملا ہے ۔
توجن کو نورِ نبی کا صدقہ ملے وہ تو تمام جہان کی زبانوں کا عالم بن جائے تو کیا اس نبی کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ انہیں لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا تو اس نبی کے اپنے علوم کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟
(ایسی نبی کے بارے میں کہنا کہ اسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا، یہ بہت بڑی جہالت ہے )
اور قرآن کریم صحابہ کرام نے خود سے نہیں لکھا بلکہ قرآن کا ہر ہر لفظ بلکہ ہر ہر حرف لکھنے کا سلیقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو سکھایا اور بتایا۔ اور جو جو حضور نے بتایا اور جس جس طرح بتایا بعینہ وہی کچھ اور اسی طرح صحابہ نے لکھا ۔ اس میں ایک بال برابر بھی کمی بیشی نہیں کی۔
یہ ضروری نہیں کہ ہمیں ہر لفظ لکھنے کی طرز سمجھ آجائے بلکہ قرآن کی طرح قرآن کا رسم الخط و تحریر بھی معجزہ ہے جو عقلوں سے وراء ہے۔
کیا آپ نہیں دیکھتے ہیں
قرآن میں وَ الَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْۤ اٰیٰتِنَا یہ آیت دو جگہ آئی۔ ایک جگہ "سعو" کے بعد الف ہے اور دوسری جگہ نہیں ہے۔ کون اس کی وجہ سمجھ سکتا ہے؟
قرآن میں دو جگہ "سراجاً" لکھا ہے یعنی راء کے بعد الف ہے ۔ لیکن ایک جگہ "سرجا" لکھا ہے یعنی راء کے بعد الف نہیں بلکہ راء کے اوپر کھڑا زبر ہے۔
اس طرح کی بہت مثالیں ہیں۔ ان جگہوں پر اگر عقل کے ذریعے فرق تلاش کرنا چاہیں تو یہ ممکن نہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر جگہ ہر لفظ اور ہر حرف لکھنے میں خاص راز و اسرار پوشیدہ ہیں جو اللہ اور اس کا رسول اور اس کے خاص بندے ہی جانتے ہیں۔ لیکن اتنا طے ہے کہ جو کچھ قرآن میں جس طرح لکھا ہے یہ سب حضور کے بتائے سے لکھا گیا ہے۔ اور یہ ممکن نہیں کہ صحابہ کرام نے کچھ بھی لکھنے میں غلطی کی ہو ۔ جس طرح ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن میں ایک لفظ یا ایک حرف کی کمی بیشی جائز نہیں اسی طرح صحابہ کا بھی یہی عقیدہ تھا۔
حتی کہ شیخ عبد العزیز دباغ رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر اللہ تعالی دل کی آنکھیں روشن کرے تو دیکھنے والا دیکھے گا کہ لوح محفوظ میں لکھا گیا قرآن عین اس قرآن کے مطابق ہے جو ہمارے پاس موجود ہے۔
مفتی محمد ساجد عطاری
28 ستمبر، 2024
0 Comments: