Molana Imran Raza Attari Madani
جرح و تعدیل
فن حدیث
جرح و تعدیل کچھ ابتدائی باتیں جرح و تعدیل کی تعریفات فن حدیث جرح و تعدیل
جرح و تعدیل کچھ ابتدائی باتیں
جرح و تعدیل کی تعریفات
جرح کا لغوی معنی زخمی کرنا ہے ۔
جب کہ اصطلاحی معنی ہے : وصف متى التحق بالراوي أو الشاهد سقط الاعتبار بقوله وبطل العمل به .ایسا وصف جو راوی یا شاہد (گواہ) کے ساتھ لاحق ہو تو اس کے قول کا اعتبار ساقط ہو جائے اور اس پر عمل باطل ۔
جرح کی یہ بھی تعریف کی گئی ہے : الطعن في الراوي بما يخل بعدالته أو ضبطه . راوی میں ایسا عیب بیان کرنا جو اس کی عدالت یا ضبط میں مخل ہو۔
(اکمال تہذیب الکمال، ج:۱، ص:۵)
تعدیل کا لغوی معنیٰ ترازو برابر کرنا ، تزکیہ کرنا ۔
جب کہ اصطلاحی معنی ہے : وصف متى التحق بالراوي أو الشاهد اعتبر قولهما و أخذ به . ایسا وصف جو جو راوی یا شاہد کو لاحق ہو تو ان کا قول معتبر ہو جائے یا اسے لے لیا جائے (یعنی اس پر عمل ہو)۔
(اکمال تہذیب الکمال، ج:۱، ص:۵)
دوسری تعریف : تزكية الراوي والحكم عليه بأنه عدل أو ضابط . راوی کا تزکیہ (اس طرح تعریف) کرنا یا حکم لگانا کہ وہ عادل یا ضابط ہے۔
(منہج النقد ، ص:۹۲)
جرح کا حکم :
محدّثِ اشرفیہ علامہ صدر الوریٰ قادری مصباحی اپنی مشہور و معروف کتاب ”اصول جرح و تعدیل“ میں رقم طراز ہیں :
جرح کا مقصد محض شریعت کا تحفظ اور اس کا دفاع ہے کسی کی عیب جوئی اور طعن و تشنیع یا غیبت ہر گز اس کا مقصد نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک دینی ضرورت ہے جو نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ واجب ہے ۔
(اصول جرح و تعدیل، ص:26)
امام شرف الدین نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اعلم أن جرح الرواة جائز بل واجب بالاتفاق للضرورة الداعية إليه لصيانة الشريعة المكرمة وليس هو من الغيبة المحرمة بل من النصيحة الله تعالى ورسوله صلى الله تعالى عليه وسلم والمسلمين ولم تزل فضلاء الأمة وأخيارهم وأهل الورع منهم يفعلون ذلك كما ذكر مسلم في هذا الباب عن جماعات منهم ما ذكره . جان لو کہ راویوں کی جرح جائز ، بلکہ واجب ہے۔ اس لیے کہ شریعت مقدسہ کے تحفظ کے لیے ضرورت اس بات کی داعی ہے (کہ راوی میں کوئی نقص ہو تو اسے ظاہر کر دیا جائے) اور یہ عمل غیبت محرمہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی خیر خواہی سے ہے۔ امت کے فضلا، اختیار اور اہل زہد وورع برابر راویوں کی جرح کرتے آئے ہیں۔ جیسا کہ امام مسلم نے اس باب میں ان کی کئی ایک جماعتوں سے جرحِ رواۃ کا ذکر کیا ہے۔
(شرح صحیح مسلم ج ۱، ص: ۲۰)
جرح و تعدیل کی مشروعیت
جرح و تعدیل کی مشروعیت قرآن و حدیث اور اجتماع سے ثابت ہے ، اور عقلی اعتبار سے بھی اس کا وجوب سمجھا جاسکتا ہے کہ جب کوئی دنیوی خبر ہم تک لاتا ہے تو ہم پہلے اس کی تفتیش کرتے ہیں کہ یہ سچا ہے یا جھوٹا ، کہیں اس نے کذب بیانی سے کام تو نہیں لیا ، جب دنیوی معاملات میں اتنی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے تو جہاں نبوی اقوال و افعال کی بات ہو وہاں تو احتیاط انتہیٰ درجہ کی ہونا اشد ضروری ہے تاکہ کہیں احادیث میں جھوٹی باتیں در نہ آئیں ۔
علماے محدثین نے جرح و تعدیل کی مشروعیت پر کئی جہت سے تشفی بخش کلام کیا ہے، خاص طور پر علامہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے الکفایہ میں اس پر تفصیلاً کلام کیا ہے۔
اس مسئلہ کو دو اعتبار سے سمجھا جاسکتا ہے :
1️⃣ راویوں کے احوال سے پردہ اٹھانے کے لیے بحث و تمحیص اور سوال کرنا ضروری ہے ۔
قرآنی دلائل :
• اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا . اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو ۔
(پارہ 26، سورہ حجرات : 6)
اس آیت میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ خبر اور گواہی صرف عادل کی قبول کی جائے۔
• دوسری جگہ ارشاد فرمایا : وَّ اَشْهِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْكُمْ . اور اپنوں میں سے دو عادل گواہ بنالو۔
(پارہ 28، سورہ طلاق : 2)
عادل اور غیر عادل میں فرق اسی صورت میں ممکن ہے جب کہ ہم احوال رواۃ سے بحث کریں اور جو چیز واجب کے ذریعے ہی مکمل ہو وہ کام بھی واجب ہوتا ہے لہذا احوال رواۃ سے بحث کرنا بھی واجب ہوا۔
نبوی دلائل :
• عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ، أَتَى النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ إِنَّهُ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَأَعَادَ عَلَيْهِ مِرَارًا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَسَأَلَ قَوْمَهُ: «أَمَجْنُونٌ هُوَ؟» قَالُوا: لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ، قَالَ: «أَفَعَلْتَ بِهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ، فَانْطُلِقَ بِهِ فَرُجِمَ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ.
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نبی پاک علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے اور کہا کہ ان سے زنا سرزد ہو گیا ہے ، نبی پاک ﷺ نے ان سے اعراض فرمایا، انھوں نے دوبارہ اس بات کو دہرایا ، نبی پاک علیہ السلام نے پھر چہرہ دوسری جانب پھیر لیا اور ان کی قوم سے پوچھا : کیا یہ مجنون ہے؟
لوگوں نے کہا: نہیں ایسا نہیں ہے، حضور علیہ السلام نے ماعز اسلمی سے فرمایا :کیا آپ نے ایسا کیا ہے؟ ماعز بن مالک نے عرض کی: جی! ہاں ۔ تب نبی پاک ﷺ نے ان کے رجم کا حکم دیا اور ان کو لے جا کر رجم کر دیا گیا اور ان پر نماز نہیں پڑھی گئی۔
(سنن أبي داود، ج:4، ص:146، رقم الحدیث : 4421)
نبی اکرم ﷺ نے ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ کے حال کے متعلق ان کی قوم سے دریافت فرمایا اور قوم کے جواب "لیس به بأس" کو قبول کیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ احوال میں تفتیش لازم ہے۔
• دوسری حدیث میں ہے :
إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ، مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. مجھ پر جھوٹ گڑھنا کسی دوسرے پر جھوٹ گڑھنے کی طرح نہیں ، جس نے قصداً مجھ پر جھوٹ گڑھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۔
(صحیح بخاری، ج:2، ص:80، رقم الحدیث : 1291)
اجماع :
ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر صرف عادل کی مقبول ہوگی جیسا کہ شہادت صرف عادل کی مقبول ہوتی ہے ، اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو مخبر اور شاہد کی عدالت معروف نہ ہو تو ان کے بارے میں سوال کرنا واجب ہوگا۔ یا پھر اہل معرفت سے ان کے احوال کے متعلق خبر طلب کی جائے گی۔ کیوں کہ ان کے عادل ہونے کا علم اسی صورت میں ہوگا جب کہ ہم ان کے قول کی طرف رجوع کریں جو مخبر اور شاہد کے تزکیہ کو جانتے ہیں۔ لہذا یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ (تفتیش) ضروری ہے۔
(الکفایہ ، ص:33)
2️⃣ تذکیہ کرنے والے پر مسئول عنہ کا حال واضح کرنا ضروری ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَن سُئِلَ عن علم يعلمه فكتمه الجم يوم القيامة بلجام من نار .
جس سے کسی ایسے علم کے متعلق سوال ہوا جو ہو جانتا ہے مگر اس نے چھپایا (علم ظاہر نہ کیا ) قیمات کے دن اسے آگ کی لگام دی جائے گی۔
(سنن ابن ماجہ ، ج:1، ص:98، رقم الحدیث :266)
یہ حدیث عام ہے ، لہذا احوال رواۃ کی معرفت کو بھی شامل ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے جب اس کے متعلق سوال کیا گیا ، تو ارشاد فرمایا : جب تم اور ہم دونوں سکوت اختیار کرلیں گے تو جاہل شخص صحیح اور غلط کو کیسے پہنچانے گا؟
امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب ہم بیان نہیں کریں گے تو حق اور باطل کہ پہچان کیوں کر ہوگی۔
(اصول الجرح و التعدیل للعتر، ص:13)
احوال رواۃ کی صفات بیان کرنا بغیر سوال کے بھی واجب ہے جیساکہ اس پر دلیل یہ حدیث پاک ہے : الدين النصيحة . دین تو خیرخواہی کا نام ہے۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے : بئس رجل العشيرة . یہ قوم کا برا شخص ہے۔ تمام جرح و تعدیل کے دلائل کا مدار اسی پر ہے ۔
(اصول الجرح و التعدیل، ص:14)
علامہ نور الدین عتر لکھتے ہیں :
عقلی طور پر بھی یہ ضروری ہے کہ جب رواۃ کی جرح و تعدیل واجب ہے تو جس کے پاس جر ح و تعدیل کا علم ہے وہ اس کو ظاہر کرے یہ بھی واجب ہے کیوں کہ واجب جس کے ذریعے سے مکمل ہوتا ہے وہ چیز بھی واجب ہوتی ہے۔
(اصول الجرح و التعدیل، ص:14)
علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جرح میں غیبت ، ستر مسلم کی بے حرمتی اور تکلیف وغیرہ موجود ہے پھر بھی یہ جائز اس لیے ہے تاکہ شریعت کی حفاظت ہوسکے، اگر جرح جائز نہ ہوگی تو سچے جھوٹے، فاسق اور عادل ، مغفل اور ضابط میں امتیاز کیوں کر ہوگا، احادیث صحیحہ غیر کے ساتھ مختلط ہو جائیں گی ، ملحدین اور زنادقہ ہر طرف سے شریعت میں فساد برپا کرنے کے لیے پل پڑیں گے ۔
یہ جرح کا جواز اس قاعدہ کے فروعات سے ہے کہ : الضَّرُوراتُ تُبيحُ المحظورات. ضرورت ایسی چیز ہے جو ممنوعات کو بھی مباح (جائز) کردیتی ہے۔
(ظفر الامانی، ص:484)
✍🏻 عمران رضا عطاری مدنی
تخصص فی الحدیث سال دوم
📍مرکزی جامعۃ المدینہ ناگپور
0 Comments: