حیات
سیرت
محمد کامران رضا
سیرت جلالۃ العلم محمد کامران رضا متعلم جامعۃ المدینہ فیضان عطاۓ عطار احمدآباد گجرات
از :- محمد کامران رضا
(متعلم جامعۃ المدینہ فیضان عطاۓ عطار احمدآباد گجرات)
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کہ کسی بھی شخصیت کی شہرت و پہچان کے پیچھے خاندان کا پس منظر داخل ہوتا ہے۔ لیکن یہ ایک مسلم حقیقت ہے، کہ بعض افراد اپنے خاندان سے قطع نظر صرف اور صرف اپنے فضل و کمال علم و عمل کی بنیاد پر پوری دنیا میں عزت و شہرت کے حامل بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہر دور میں ایسے افراد پیدا کرتا ہے۔ جو محض اپنی جدوجہد،شوق ولگن،علم و حکمت اور فکر و تدبر کا آفتاب بن کر علما و فضلائے زمانہ کے لیے مرجع و ماوی ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی شخصیات بہت کم ہوتی ہیں۔ جوعلم و حکمت، تحقیق وتدقیق، تلاش و جستجو کا سرمایہ رکھنے کے ساتھ ساتھ خلوص و للہیت، اخلاق و اطوار، شفقت ورافت، توضیح اور سادگی کے پیکر بھی ہو لیکن دنیا کبھی بھی اہل اللہ اور عارف باللہ سے خالی نہ رہی۔
ماضی قریب میں ایک ایسی علمی و روحانی شخصیت جو شہر مرادآباد کے مشہور قصبہ ”بھوج پور“ میں پیدا ہوئی۔ جس کو بچپن میں لوگوں نے ”عبد العزیز“ کے نام سے یاد کیا۔ دھیرے دھیرے وہ حافظ قرآن بنا۔ بعد میں وہ علم و حکمت اور زہد و تقوی کا پیکر بن کر دنیا میں چمکا۔ ارباب علم ودانش نے اس پیکر علم و عمل کو ”حافظ ملت“استاد العلماء، جلالۃ العلم جیسے عظیم القابات سے نوازا۔ آپ کے حسن و اخلاق کا یہ عالم تھا کہ اپنے تو اپنے بلکہ غیر بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔
حافظ ملت وہ عظیم شخصیت ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کی خدمت و حفاظت میں بسر فرمایا۔ حافظ ملت رحمۃ اللہ علیہ میدان تقریر و تحریر تبلیغ ارشاد تنظیم تدبیر اور بالخصوص تعلیم و تدریس اور مناظرہ و مباحثہ ہر ایک میں شہ سوار نظر تے ہیں۔آپ قدس سرہ جب مبارک پور تشریف لائے اس وقت سنیت کے خزاں رسیدہ چمن میں ایک بہار آگئی۔ پورے مبارک پور میں علمی ہلچل پیدا ہوگئی۔ مبارک پور شہرت و عروج کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ سارے ہندوستان میں مبارک پور کا چرچا ہونے لگا۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنی جدوجہد،محنت و لگن سے ایک چھوٹے سے مدرسہ کو اہل سنت کا عظیم قلعہ بنا دیا جس کو آج دنیا اہل سنت کا عظیم الشان علمی و روحانی مرکز ”الجامعۃ الاشرفیہ“ سے جانتی ہے۔ آج ہم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی سیرت بیان کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔
ولادت
حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ولادت 1312 ہجری بمطابق 1894عیسوی میں قصبہ بھوج پور ضلع مرادآباد یوپی ہند میں بروز پیر صبح کے وقت ہوئی۔
نام ونسب
آپ کا نام عبدالعزیز ابنِ حافظ غلام نورابن ملا عبدالرحیم علیہم الرحمۃ رضوان
حافظ ملت کا خاندان
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد ماجد احکام شرع کے پابند، باعمل حافظ اورعاشق قرآن تھے۔ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے قرآن پاک کی تلاوت زبان پر جاری رہتی، آپ ”بڑے حافظ جی“ کے لقب سے مشہور تھے۔
حضرت حافظ ملت فرماتے ہیں ایک بار والد ماجد حیدرآباد میں ماہ رمضان میں تراویح سنانے کے لیے بلائے گئے۔ مدینہ مسجد میں 27 کو شبینہ ہوا۔ دوسرے حافظوں کو آپ کے سامنے پڑھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پورا قرآن مجید والد ماجد ہی نے ختم کیا۔ اس وقت والد صاحب کی عمر ستر 70 سال کی تھی۔
(حیات حافظ ملت صفحہ نمبر 54)
آپ کی والدہ ماجدہ بھی صوم وصلوۃ کی بڑی پابند تھی۔ باوجود غربت کے وہ اپنے پڑوسی کا اس قدر خیال رکھتی تھی کہ اپنا کھانا اکثر بار ایک بیوہ پڑوسن کو کھلا دیتی اور خود بھوکی رہ جاتی
(ایضا، ص55)
حافظ ملت کے برادران کی ترتیب اس طرح ہے (1)حافظ ملت (2)حافظ عبدالرشید (3)مولانا حکیم عبدالغفور (4) مرحوم عبدالشکور۔
شادی خانہ آبادی
حافظ ملت فرماتے ہیں ”میرا نکاح میرے ماموں کی لڑکی سے ہوا تھا۔ یہ عورت اپنے زمانہ کی ولیہ تھی۔اس سے چار بچے ہوئے مگر وہ بچپن ہی میں انتقال کر گیے۔آخری بچہ کی ولادت ہی میں مرحومہ کا انتقال ہو گیا۔ مجھے اس کی جدائی کا عظیم صدمہ ہوا۔ پھر میں نے ارادہ کرلیا کہ اب دوسرا نکاح نہیں کرو گا۔ مگر والد صاحب کے اصرار کی وجہ سے دوسرے نکاح کے لیے راضی ہو گیا۔ میرا دوسرا نکاح جس خاتون سے ہوا۔ اس سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہوئی۔ ایک لڑکا 15 روز کی عمر میں انتقال کر گیا، ایک بڑی لڑکی کا بھی انتقال ہو گیا۔ دولڑکے دولڑکیاں ہیں۔ باصلاحیت ہیں
موجودہ اولاد
(1)حضرت مولانا عبد الحفیظ صاحب قبلہ (جانشین حافظ ملت و
سربراہ اعلیٰ الجامعۃ الاشرفیہ) (2)حافظ عبدالقادر صاحب۔ اور دو صاحبزادیاں ہیں۔
(ایضا، ص56)
ابتدائی تعلیم و تربیت
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم ناظرہ اور حفظ قرآن پاک کی تکمیل والد ماجد حافظ غلام نور قدس سرہ سے کی۔ اس کے علاوہ اردو کی چار جماعتیں اپنے وطن بھوجپور میں پڑھیں۔ جبکہ فارسی کی ابتدائی کتب بھوج پور اور پیپل سانہ (ضلع مرادآیاد) سے پڑھ کر گھریلو مسائل کی وجہ سے سلسلہ تعلیم موقوف ہو گیا اور بھوجپور میں ہی مدرسہ حفظ القرآن میں مدرس اور بڑی مسجد میں امامت کے فرائض سرانجام دینے لگے۔
( مختصر سوانح حافظ ملت صفحہ 22 ملخصا)
سلسلہ تعلیم دوبارہ جاری ہو گیا
پھر کچھ عرصے بعد حالات بدلے اور والد ماجد علیہ الرحمہ کی خواہش اور دادا جان کی پیشن گوئی پوری ہونے کا سامان کچھ یوں ہوا کہ علامہ عبدالحق خیرآیادی قدس سرہ العزیز کے شاگرد رشید مولانا حکیم محمد شریف حیدرآبادی علیہ الرحمہ علاج کے سلسلے میں بھوج پور تشریف لانے لگے جب بھی آپ تشریف لاتے تو حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے۔ ایک دن کہنے لگے آپ قرآن تو بہت عمدہ پڑھتے ہو،اگر آپ علم طب پڑھنا چاہتے ہیں تو میں پڑھا دوں گا، والد صاحب سے حافظ ملت علیہ الرحمہ نے اجازت طلب کی کہ میں علم طب سیکھنے کے لیے مرادآباد جانا چاہتا ہوں۔ والد صاحب نے مرادآباد رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی۔اب بھوجپور میں حافظ ملت کی جگہ پر ان کے والد صاحب امامت اور مدرسی کرنے لگے۔
حکیم صاحب نے گلستان میں حضرت کا امتحان لینے کے بعد عربی میں علم طب کا مشورہ دیا اور انہوں نے آپ کو میزان شروع کرائی 15 دن میں میزان و منشعب ختم کردی۔ حضرت نے یاد کی اورسنا دی اس کے بعد نحو میر،صرف میر بھی چند روز میں ختم ہو گئی۔ حکیم صاحب نے آپ کی ذہانت اور قابلیت کو دیکھ کر کہا میری مصروفیات زیادہ ہیں۔ مزید مطالعے کا وقت نہیں ملتا اب آپ تعلیم کے لیے جامعہ نعیمیہ میں داخلہ لے لیجئے چنانچہ حافظ ملت علیہ رحمہ نے 27 سال کی عمر میں جامعہ نعیمیہ میں داخلہ لے لیا تین سال تعلیم حاصل کی اب علم کی پیاس شدت اختیار کر چکی تھی جسے بجھانے کے لیے کسی علمی سمندر کی تلاش تھی۔
صدر الشریعہ کی صحبت کیسے ملی
1342ھ میں آل انڈیا سنی کانفرنس مرادآباد میں منعقد ہوئی۔ جس میں مشہور و معروف اور نامور علمائے اہلسنت تشریف لائے۔ جن میں صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی عليْهِ رحمة اللہ القوی بھی شامل تھے۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے موقع دیکھ کر صدر الشریعہ رحمةُ الله علیہ کی بارگاہ میں درخواست کی تو آپ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْہ نے فرمایا: ماہ شوال سے اجمیر شریف آجائیں مدرسہ معینیہ میں داخلہ دلوا کر تعلیمی سلسلہ شروع کرادوں گا۔
(ایضا ص 24وغیرہ)
مرادآباد سے اجمیر شریف کا سفر
مرادآباد سے آپ اپنے چند اہم اسباق دوستوں کے ساتھ اجمیر کے لیے نکلے۔ مرادآباد سے دہلی پہنچے،آپ سب نے وہاں ایک مدرسے میں رات کو قیام کیا اور صبح دہلی سے اجمیر والی ٹرین میں روانہ ہو گئے۔ زاد راہ کی قلت اور افلاس کے باعث سب لوگوں پر بھوک غالب تھی۔ ٹرین جب اسٹیشن پر جا کر رکی۔ تو دو آنے کے چنے خریدے تاکہ دوران سفر ان چنوں کے ذریعے سے بھوک مٹائی جائے۔ عجیب اتفاق تھا کہ چنوں کے دانے اکثر خراب تھے۔ یہ چنے رات و دن دونوں وقت کے کھانے کی جگہ سامان تسلی بنے۔
دوسرے روز تقریبا 10 بجے اجمیر مقدس کے اسٹیشن پر اترے۔ یہ قافلہ جامعہ معینیہ عثمانیہ پہنچا۔ سفر کی صعوبتوں کو شکست دیتے ہوئے۔ شدید بھوک کے باوجود بغیر کسی کمزوری کا اظہار کیے۔ اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہے۔اب اہم مرحلہ دارالعلوم میں داخلے کا تھا۔ اس کے بعد کتابوں کا حصول اور کھانے پینے کا انتظام متوقع تھا۔ ایک ملاقاتی کے کمرے میں سب نے اپنا سامان رکھا۔ استنجا وغیرہ سے فارغ ہوئے۔ تو بھوک چمک گئی،کمرے کے باہر ایک بلند طاق میں مطبخ کی بچی ہوئی خشک روٹیوں سے بھری ہوئی ایک چھوٹی سی ٹوکری سامنے ائی اس کو کھایا، خدا کا شکرادا کیا۔ پھر آپ سب کا داخلہ ہو گیا۔ مگر کھانے پینے کا انتظام دو ماہ کے بعد ہوا۔ دارالعلوم کی مجلس شوریٰ نے تمام لوگوں کے لیے خوراک اور ایک ایک روپیہ ماہانہ وظیفہ کی منظوری دی۔
(حیات حافظ ملت ص59 )
پیارے اسلامی بھائیو !حافظ ملت علیہ رحمہ اور آپ کے ہم سبق دوستوں نے مرادآباد سے اجمیر کا سفر فرمایا راستے میں کھانے کا کوئی سامان نہ تھا صرف وہ دو آنے کے چنے تھے جن کو کھا کر سفر گزارنا تھا یہ علماء سلف کی حیات ہی کا حصہ ہے جنہوں نے بھوکے رہ کر حصول علم کے لیے بے شمار قربانیاں دی۔
آپ کے اساتذہ
(1)والد صاحب (2)مولوی عبدالمجید صاحب (3)مولوی حکیم
مبارک اللہ (4)مولانا عبدالعزیز خان فتح پوری (5) مولانا اجمل سنبھلی صاحب (6)مولانا مفتی امتیاز احمد
صاحب (7) مولانا عبدالحی صاحب افغانی صاحب (8) مولانا وصی احمد سہسرامی رحمۃ اللہ علیہم آپ نے جلیل القدر اساتذہ سے اکتساب علم کیا بالخصوص صدر الشریعہ علیہ الرحمہ کی نگاہ فیض سے آسمانِ علم کے درخشاں ستارے بن کر چمکے
(حیات حافظ ملت صفحہ 62,63ملتقطا)
میدانِ تدریس میں حافظ ملت
آپ علیہ الرحمہ درس نظامی کی تکمیل کے بعد کچھ عرصہ بریلی شریف میں حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کی خدمت میں رہے۔ شوال 1352ہجری میں صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے آپ کو مبارک پور ضلع اعظم گڑھ یوپی میں درس و تدریس کے لیے بھیجا۔
(سوانح حافظ ملت صفحہ 27 ملتقطا)
مبارک پور آمد
حافظ ملت علیہ الرحمہ چند طلبہ ہم راہ لے کر مبارک پور تشریف لائے۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ آپ کے طرز تدریس اور علم وعمل کے چرچے عام ہو گئے۔ اور تشنگان علم کا ایک سیلاب امنڈ آیا۔ جس کی وجہ سے مدرسے میں جگہ کم ہو گئی اور ایک بڑی درسگاہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اپ کی اس بے پناہ مقبولیت اور عزت و شہرت فرقہ باطلہ وہابیہ سے دیکھی نہ گئی۔ مبارک پور میں سب سے بڑا دیوبندی کا جو مولوی تھا اس نے مذہبی بنیاد پر آپ کو چیلنج کرنے لگا۔ آپ سے تقریری و تحریری مناظرے کے لیے میدان میں اتر پڑا اس معرکے میں آپ نے تنہا ان سب کا مقابلہ کیا۔ دن میں درس و تدریس کے مشغلے میں مشغول رہتے ہیں۔ ادھر حافظ ملت کا یہ عالم تھا کہ یکہ و تنہا پورے مدرسے کے طالب علموں کو روزانہ تیرہ ، تیرہ کتابوں کا درس دیتے۔ جس میں سب سے نیچی کتاب شرح جامی تھی۔ دیوبندی حضرات کی تقریروں کی رپورٹ دیکھ کر ان کے تمام اعتراضات کے جوابات تیار کرتے۔ پھر رات میں ایک ایک بجے تک تقریریں کرتے۔ اور مہینوں یہ سلسلہ جاری رہا مگر الحمدللہ تعالی اس میدان میں حافظ ملت تنہے تنہا ڈٹے رہے بالآخر اس جہاد میں یہ مرد مجاہد مظفر و منصور ہوا۔ اور فاتح مبارک پور کی حیثیت سے عزت و شہرت کا حامل ہوا
(حافظ ملت نمبر صفحہ128)
یہ کون اٹھا ہند شمالی کی زمیں سے
علم اور حقائق کی سنبھالے ہوئے قندیل
سدره کے مکینوں سے سنا بدر نے اک راز
ہونے کو ہے اب آرزوے شوق کی تکمیل
الجامعۃ الاشرفیہ کی سنگ بنیاد
مدرسہ اشرفیہ کا سالانہ جلسہ اور جدید عمارت کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہ ،حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ اور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی قدس سرہ وغیرہ علماء کرام سرزمین مبارک پور کو اپنے ورود ( یعنی تشریف آوری) مسعود سے زینت بخشی- اس موقع پر مدرسہ مصباح العلوم کا سنگ بنیاد رکھا گیا - بعد نماز جمعہ حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ نے تقریر فرمائی رسم بنیاد ادا کرنے کا اعلان کیا۔ ان بزرگان دین نے اپنے مبارک ہاتھوں سے مدرسے کا سنگ بنیاد رکھا۔
حضور حافظ ملت نے ایسے ایسے ہیرے تراشے جو آج اہل سنت کی آن ، بان اور شان ہیں۔
حضور حافظ ملت درس نظامی کی اہم اور مشکل سے مشکل کتابوں کو برجستہ پڑھانے پر قدرت رکھتے تھے ایک بار قاضی مبارک کا درس ہو رہا تھا معمول کے مطابق درس ختم کر کے کتاب بند کرنی چاہیے۔ ایک ذکی طالب علم نے اپنے ہم درس کو اشاروں میں کہا حضرت کا مطالعہ یہیں ختم ہو گیا۔ حضرت نے کتاب کھول دی اور پڑھانے کے لیے ارشاد فرمایا طالب علم نے اپنے مطالعے کے مطابق عبارت پڑھی۔ حضرت نے ایسی شان سے درس دیا اب طالب علم نے کتاب بند کرنی چاہیے۔ حضرت نے فرمایا اور پڑھو۔ مگر ان کا مطالعہ ختم ہو چکا تھا اس لیے وہ خاموش ہو گئے۔ حضرت نے فرمایا عبدالعزیز کو قاضی مبارک پڑھانے کے لیے مطالعے کی حاجت نہیں ہے بفضلہ تعالیٰ ایک نشست میں پوری کتاب پڑھا سکتا ہوں
(حافظ ملت ارباب علم ودانش کی نظر میں صفحہ 50)
ایک بار علامہ غلام میرٹھی علیہ الرحمہ سالانہ امتحان کے لیے مدعو کیے گئے مسلم الثبوت نامی کتاب کا امتحان ہو رہا تھا حافظ ملت علیہ الرحمہ کے ہنہار طلبہ امتحان دے رہے تھے صبح اول وقت سے امتحان و شروع ہوا اور 11 بجے دن تک لفظ "اما بعد فھذا“ پر سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری تھا
حافظ ملت تشریف لائے اسی نشست میں جب علامہ میرٹھی علیہ الرحمہ سے مخاطب ہوکر حافظ ملت نے فرمایا حضرت اب پڑھنے والے طلبہ نہیں رہ گئے۔ اس پر علامہ میرٹھی امام النحو علیہ الرحمہ نے فرمایا آج 25 سال بعد یہ کتاب سامنے آئی امتحان لیتے ہوئے بڑی مسرت ہو رہی ہے کہ آپ کے بچوں نے کتاب کو سمجھا ہے اور امتحان دینے والی ایسی جماعت عمر بھر میں پہلی بار ملی
(معارف حافظ ملت 25 )
آپ کے مشہور تلامذہ
(1) حضرت علامہ عبدالرؤف بلیاوی (2)علامہ ارشد القادری (3)مفتی شریف الحق امجدی (4)مفتی عبدالشکور صاحب (5) مفتی عبدالمنان اعظمی(6) علامہ بدر القادری(7) علامہ سید مدنی میاں (8)علامہ بدرالدین احمد قادری (9)علامہ شمس الدین گھوسی (10) محدث کبیر صاحب (11)علامہ احمد مصباحی (12) علامہ یاسین اختر مصباحی (13) علامہ عبدالمبین نعمانی (14)علامہ عبدالحفیظ صاحب (جانشین حافظ ملت) یہ تو چند تلامذہ کے نام ہیں ان کے علاوہ بھی ہندوستان اور دیگر ممالک کے بڑے بڑے علمائے کرام و مفتیان عظام حضرت کے شاگرد ہیں۔
جس نے پیدا کیے کتنے لعل و گہر
حافظ دین و ملت پہ لاکھوں سلام
بیعت اور خلافت
حافظ ملت علیہ رحمہ شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی قدس سرہ کہ مرید اور خلیفہ تھے اور اپ صدر الشریعہ مفتی امجد علی عظمی علیہ الرحمہ مصنف بہار شریعت سے بھی آپ کو خلافت و اجازت حاصل ہوئی
( فیضان حافظ ملت صفحہ نمبر 27 )
اپ کو اشرفی اور رضوی دونوں بارگاہوں سے فیض حاصل تھا
آپ کی تصانیف
آپ علیہ الرحمہ تحریر و تصنیف میں کامل مہارت رکھتے تھے۔لیکن درس و تدریس و تربیت تعمیر شخصیت اور الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کی تعمیر اور اس کے نظم و نسق اور دیگر دینی خدمات کی وجہ سے زیادہ تحریری کام کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ آپ نے مختلف موضوعات پر کتب تحریر فرمائی۔ جن میں سے چند کے نام یہ ہے (1)ارشاد القرآن (2) مَعارفِ حدیث (3)انباء الغیب (4) فرقۂ ناجیہ(5) المصباح الجديد(6) العذاب الشديد (المصباح الجدید کے جواب مقامع الحدید “ کا جواب) (7) فتاوی عزیزیہ (8) حاشیہ شرح مرقات
(حافظ ملت صفحہ نمبر73 )
آپ کے معمولات
حافظ ملت فرائض و سنن کے بچپن سے پابند تھے جب سے بالغ ہوئے نماز تہجد شروع کر دی جس پر آخری عمر تک عمل رہا۔ صلوۃ الاوابین و دلائل الخیرات شریف وغیرہ روزانہ بلا ناغہ پڑھتے رہیں آخری ایام میں پڑھنے سے معذور ہو گئے تو دوسروں سے پڑھوا کر سنتے تھے صبح کو روزانہ سورہ یاسین اور سورہ یوسف کی تلاوت کا التزام رکھتے اور جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کا بھی معمول تھا
(حافظ ملت صفحہ نمبر 24)
شہزادہ اعلیٰ حضرت مفتی اعظم ہند
علامہ مولانا مصطفیٰ رضا خان عَلَيْهِ رَحْمَةُ الرَّحمن فرماتے ہیں: اس دنیا سے جو لوگ چلے جاتے ہیں ان کی جگہ خالی رہتی ہے۔ خصوصاً مولانا عبد العزیز جیسے جلیل القدر عالم ، مرد مومن، مجاہد ، عظیم المرتبت شخصیت اور ولی کی جگہ پُر ہونا بہت مشکل ہے۔
(حیات حافظ ملت، ص 824 بتغیر)
حافظ ملت کی سادگی اور حیا
آپ علیہ الرحمہ کی زندگی نہایت سادہ اور پر سکون تھی کہ جو لباس زیب تن فرماتے وہ موٹا سوتی کپڑے کا ہوتا، کرتا کلی دار لمبا ہو تا، پاجامہ ٹخنوں سے اوپر ہوتا، سر مبارک پر ٹوپی ہوتی جس پر عمامہ ہر موسم میں سجا ہو تا، شیروانی بھی زیب تن فرمایا کرتے، چلتے وقت ہاتھ میں عصا ہوتا۔ راستہ چلتے تو نگاہیں جھکا کر چلتے اور فرماتے: میں لوگوں کے عیوب نہیں دیکھنا چاہتا۔ گھر میں ہوتے تو بھی حیا کو ملحوظ خاطر رکھتے، صاحبزادیاں بڑی ہوئیں تو گھر کے مخصوص کمرے میں ہی آرام فرماتے، گھر میں داخل ہوتے وقت چھڑی زمین پر زور سے مارتے تا کہ آواز پیدا ہو اور گھر کے لوگ خبر دار ہو جائیں، غیر محرم عورتوں کو کبھی سامنے نہ آنے دیتے۔
(حیات حافظ ملت، ص 189، 185 وغیره)
وصال پر ملال
یکم جمادى الآخرى 1396ھ بمطابق 31 مئی 1976ء رات گیارہ بج کر پچپن منٹ پر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ (حیات حافظ ملت، ص ۸۰۹ ملخصا، و غیره)
از :- محمد کامران رضا
(متعلم جامعۃ المدینہ فیضان عطاۓ عطار احمدآباد گجرات)
0 Comments: