Headlines
Loading...
سیرت صدیق اکبر رضی الله تعالی عنہ  از محمد کامران رضا گجراتی متعلم درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ احمدآباد گجرات

سیرت صدیق اکبر رضی الله تعالی عنہ از محمد کامران رضا گجراتی متعلم درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ احمدآباد گجرات

سیرت صدیق اکبر رضی الله تعالی عنہ  از محمد کامران رضا گجراتی متعلم درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ احمدآباد گجرات محمد کامران رضا, محمد کامران رضا گجراتی,سیرت,

سیرت صدیق اکبر رضی الله تعالی عنہ

از :- محمد کامران رضا گجراتی
(متعلم درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ احمدآباد گجرات)
پیارے اسلامی بھائیو! تمام انبیاء و رسول کے بعد جہانِ عالم میں سب سے افضل واعلیٰ شخصیات صحابہ کرام کی ہیں۔ یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں۔ جنہوں نے حضورﷺ سے بلاواسطہ شرف تعلیم حاصل کیا۔ اور دین کی اشاعت میں بے شمار مصائب وآلام اٹھائے۔ صحابہ کرام کی دوسروں سے فضیلت اور بااہم مراتب کی تفصیل کا خلاصہ کچھ یوں ہیں۔ تمام انبیاء و مرسلین کے بعد تمام مخلوق الہی انس و جن و ملک (یعنی انسان جن اور فرشتوں) سے افضل امیرالمؤمنین، محبوب حبیب خدا، صاحب صدق و صفا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں،ان کے بعد فاروق اعظم، پھر حضرت عثمان غنی، پھر مولا علی، پھر عشرہ مبشرہ، پھر اہل بدر، پھراہل احد، پھر اہل بیعت رضوان، پھر تمام صحابہ کرام۔ یہی وہ عظیم گروہ ہے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ”وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى“ (قرآن) اسی طرح دوسری جگہ پر اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ”رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ“(قرآن)اسی طرح اس عظیم گروہ کے فضائل و خصائل اور شمائل قران و حدیث میں وارد ہیں۔ پر ہم نے دو ہی آیت پیش خدمت کی۔ یوں تو تمام صحابہ کرام ہی مقتدیٰ بہ (یعنی جن کی اقتداء کی جائے) ستاروں کی مانند ہیں لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان ہی نرالی ہے پیارے اسلامی بھائیو! نبوت سے قبل اہل مکہ کفر و شرک ظلم و ستم شراب نوشی بت پرستی وغیرہ کئی برے معاملات میں ملوث تھے۔ مگر اس وقت بھی چند لوگ ایسے تھے۔ جنہوں نے ان کاموں کو نہ صرف غلط سمجھا بلکہ ان کے خلاف حق کی تلاش میں رہے۔ انہی میں سے ایک شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بھی تھی۔

 آپ کے متعلق ایک واقعہ ملفوظات اعلی حضرت حصہ 4 صفحہ60 تا 61 پر ہے۔ مختصر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چند برس کی عمر کے ہوئے تو آپ کے والد آپ کو بت کھانے لے گئے اور کہا یہ تمہارے بلند و بالا خدا ہے۔ انہیں سجدہ کرو جب آپ بت کے سامنے تشریف لے گئے تو فرمایا میں بھوکا ہوں مجھ کو کھانا دے، میں ننگا ہوں مجھے کپڑے دے، میں پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔ وہ بت بھلا کیا جواب دیتا آپ نے ایک پتھر اس کو مارا جس کے لگنے سے وہ وہیں گر پڑا۔ آپ کے والد نے جب یہ معاملہ دیکھا تو آپ کو غصہ آیا۔ پھر آپ کے رخسار پر تھپڑ مارا۔اور وہاں سے آپ(رضی اللہ عنہ) کی ماں کے پاس لاۓ، سارا واقعہ بیان کیا۔ ماں نے کہا:اسے اس کے حال پر چھوڑ دو جب یہ پیدا ہوا تھا۔ تو غیب سے آواز آئی تھی کہ
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی سچی بندی! تجھے خوشخبری ہو یہ بچہ عتیق ہے، آسمانوں میں اس کا نام صدیق ہے۔ محمدﷺ کا صاحب اور رفیق ہے۔ یہ روایت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) نے خود مجلس اقدس(ﷺ) میں بیان کی۔ جب یہ بیان کر چکے،حضرت جبریل امین( عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام ) حاضر بارگاہ ہوئے اور عرض کی:- ابو بکر نے سچ کہا اور وہ صدیق ہیں۔ یہ حدیث امام احمد قسطلانی(علیہ الرحمہ) نے شرح صحیح بخاری میں ذکر کی ۔
(ارشاد السارى شرح صحیح بخاری ج 8 ص370 ،ملفوظات اعلی حضرت ص 60 تا 61 بتصرف)
 پیارے بھائیو!حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کبھی بھی بت پرستی نہ کی اور نہ ہی اللہ کے سوا کسی کو خدا مانا بلکہ آپ ہمیشہ توحید پر رہے۔ 
حضور ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:” سب سے بڑی عبادت فقہ یعنی دین میں غور و فکر کرنا اور دین کی سب سے افضل چیز تقویٰ یعنی پر ہیز گاری ہے“۔
(مجمع الزاوئد، كتاب العلم،الحدیث: 489، ج1، ص325)
حضرت صدیق اکبر کی کیا ہی شان ہے۔ جن کے تقوے کو خود قرآن نے بیان کیا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ”وَسَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى “(پارہ 30 سورہ الّیل) ترجمہ:- اور بہت جلد اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار۔ اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت سیدنا صدیق اکبر ہیں۔ (تفسیر خزائن العرفان پارہ 30) 
امام خازن فرماتے ہیں :- تمام مفسرین کے نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔( تفسیر خازن) 
حدیث پاک میں آپ کے متعلق حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:- ابوبکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر ادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 40) 
پیارے اسلامی بھائیو! مذکورہ فضائل و کمالات کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے، بلند اخلاق اعلیٰ کردار، سلامت رو ملنسار، وعدے کے سچے، عہد کے پکے تھے۔ اور انہی خوبیوں کی بنا پر مکہ مکرمہ اوراس کے قرب و جوار میں آپ رضی اللہ عنہ کو محبت و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اب ہم آپ کی سیرت طیبہ کو مختصر انداز میں پیش کرتے ہیں۔
آپ کی ولادت
 آپ رضی اللہ عنہ عام الفیل کے اڑھائی سال بعد اور سرکارِ دوعالـــــــمﷺ کی ولادتِ باسعادت کے دو سال اور چند ماہ بعد پیدا ہوئے۔(تاریخ الخلفاء صفحہ 24) 
نام و نسب
آپ کا نام عبداللہ ہے۔ 
آپ کا نسب عبداللہ بن عثمان عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔آپ کا تعلق قبیلہ قریش سے ہے۔ اور ساتویں پشت میں شجرہ نسب حضورﷺ کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کے والد عثمان کی کنیت ابوقحافہ ہے۔ آپ کی والدہ صاحبہ کا نام ام الخیر السلمی ہے۔ 
جمہور اہل نسب کے نزدیک آپ کا قدیم نام عبدالکعبہ تھا۔ جب آپ مشرف بہ اسلام ہوۓ۔ تو آقا ﷺ نے آپ کا نام تبدیل فرمایا اور آپ کا نام عبداللہ رکھ دیا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 ص 315) 
آپ کی کنیت اور القاب
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہیں۔آپ اپنی کنیت سے مشہور ہیں۔ بلکہ عوام الناس تو آپ کی کنیت کو ہی آپ کا نام سمجھتی ہیں۔ حالانکہ آپ کا نام عبداللہ ہیں۔ صدیق و عتیق آپ کے القاب ہیں۔ صدیق کا معنی ہے ”بہت زیادہ سچ بولنے والا“ زمانہ جاہلیت سے ہی آپ اس لقب سے مشہور تھے۔ کیونکہ آپ ہمیشہ سچ ہی بولتے تھے۔ عتیق کا معنی ”آزاد“ ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ نے آپ کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا”انت عتيق من النار“یعنی تو نار دوزخ سے آزاد ہے۔ اس وجہ سے آپ اس لقب سے مشہور ہوۓ۔ (تاریخ الخلفاء ص 29) 
حضرت صدیق اکبر کا قبول اسلام 
آپ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے بارے میں مختلف واقعات ہیں۔ ”الریاض النصرہ، جلد 1 ص 83 میں جو واقعہ ہے“ وہ واقعہ بیان کرتا ہوں:- حضرت بیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”حضرت صدیق رضی اللہ عنہ ایک بار ملک شام تجارت کے لیے گئے ہوۓ تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا۔ جو بحیرہ نامی راہب کو سنایا۔ اس نے آپ سے پوچھا:”تم کہاں سے آۓ ہو“ فرمایا مکہ سے، اس نے پھر پوچھا ”کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں“۔ فرمایا ”قریش“ سے پوچھا ”کیا کرتے ہو“، فرمایا ”تاجر ہوں“۔ وہ راہب کہنے لگا اگر اللہ تعالی نے تمہارے خواب کو سچا فرمادیا۔ تو وہ تمہاری قوم میں ایک نبی مبعوث فرمائے گا۔ اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوں گے۔ اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا کسی کو نہ بتایا۔ جب نبی کریم ﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا۔ تو آپ ﷺ نے یہی واقعہ بطور دلیل آپ کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو گلے لگا لیا، پیشانی کو چومتے ہوئے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ 
عشق مصطفیﷺ
حضور ﷺ کے تمام صحابہ عشق و وفا کے پیکر تھے۔ ان کی نس نس میں عشق مصطفیٰ ﷺ سمایا ہوا تھا۔ان کی زندگیوں کا ماحاصل عشق مصطفی ﷺ تھا۔ اسی لئے ان کا اندازعشق نرالا تھا۔ وہ حضور ﷺ کے غسال کو بھی زمین پر گرنے نہ دیتے تھے۔ تیروں کی بارش میں ڈھال بن کر حضور ﷺ کے آگے کھڑے ہو جاتے تھے۔ اپنی جان و مال کو لوٹانے کے لیے پیش پیش رہتے تھے۔ اور ان کی زندگیوں کا مقصد صرف اور صرف محبوب ﷺ کی خوشنودی تھی۔ قبول اسلام سے لے کر ساری عمر حیات نبی کی ایک ایک ادا کو،حضور ﷺ کی طرز زندگی کے ایک ایک گوشہ کو کتاب ذہن میں بہترین طریقہ سے انہوں نے مُنَقَّش کر لیا تھا۔ حضور ﷺ کے تمام اصحاب آسمانِ عشق و محبت کے ستارے ہیں۔ مگر جو محبت کا سوز، عشق کا جو انداز جناب صدیق اکبر کے یہاں نظر آتا ہے۔ تاریخ محبت کے کسی صفحہ پر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ آپ آسمان محبت کے نیر اعظم ہے، آپ حسن نبوت کی تجلیِ اول و انور رسالت کے مظہر ہے۔اسی لیے اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔
جان ہے عشق مصطفے' روز فُزوں کرے خدا 
جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھاۓ کیوں
 اب ہم آپ رضی اللہ عنہ کے عشق ومحبت سے لبریز واقعات بیان کرتے ہیں۔ 
(1)غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کے اغنیاء(یعنی مالداروں)کو حکم دیا کہ وہ اللہ پاک کے راستے میں جہاد کے لئے مالی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ تاکہ مجاہدین اسلام کے لئے خورد و نوش(یعنی کھانے پینے) اور سواریوں کا انتظام کیا جاسکے۔ آقا ﷺ کے اس فرمان کی تعمیل کرتے ہوئے۔ جس ہستی نے راہ خدا کے لئے اپنی ساری دولت بارگاہ رسالت میں پیش کی وہ صحابی ابنِ صحابی، عاشق اکبر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے گھر کا سارا مال و متاع آقا ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دیا۔ آقا ﷺ نے اپنے یارغار کے اس ایثار کو دیکھ کر فرمایا: کیا اپنے گھر بار کے لئے بھی کچھ چھوڑا؟ تو عرض گزار ہوئے:” ان کے لیے میں اللہ اور رسول کو چھوڑ آیا ہوں۔(مطلب یہ ہے کہ میرے اور میرے اہل وعیال کے لیے اللہ رسول کافی ہیں ) 
 (سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، ج 5 ص 435)
پروانے کو چراغ تو بلبل کو پھول بس 
صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس
(2)حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ، یہ صدیق اکبر کے بیٹے ہیں،آپ نے ایک مرتبہ عرض کیا،ابا جان !فلاں جنگ کے دوران ایک وقت ایسا آیا تھا۔ کہ آپ میری تلوار کے نیچے آگئے تھے۔ اس وقت حضرت عبدالرحمن دشمنوں کی طرف سے جنگ میں شریک تھے۔(یہ واقعہ آپ کے قبول اسلام سے پہلے کا ہے) اور صدیق اکبر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جنگ کررہے تھے۔ حضرت عبد الرحمن عرض کرتے ہیں: میں نے آپ کو صرف اس لئے چھوڑ دیا تھا۔ کہ آپ میرے والد ہیں۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غیرت ایمانی سے بھر پور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے بیٹے! اُس دن تم نے تو مجھے اس لیے چھوڑ دیا کہ میں تمہارا باپ ہوں، لیکن اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں کبھی نہ دیکھتا کہ تم میرے بیٹے ہو بلکہ اس وقت تمہیں دشمن رسول سمجھ کر تمہاری گردن اڑا دیتا۔ (تاریخ مدینہ دمشق، 128/30) 
حضرت صدیق اکبر رضى الله عنه فرماتے ہیں۔ مجھے تین چیزیں پسند ہیں:(1) آپ ﷺ کے چہرہ پُر انوار کا دیدار کرتے رہنا (2) آپ ﷺ پر اپنا مال خرچ کرنا اور(3) آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر رہنا۔( تفسير روح البيان ج 2 ص264)
غزوہ بدر ہو، یا اُحد ، یا فتحِ مکہ،یا جنگ تبوک ،یاخندق، یا واقعہ صلحِ حدیبیہ ہو، یا واقعہ بیعتِ رضوان ہو، یا معراج کی تصدیق ہو،یا پھر ہجرتِ نبویہ کے ناقابلِ فراموش حسین لمحات ہوں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے مُونِس وغم گُسار اور وزیر و مُشیر بن کر ہر موڑ پر جاں نثاری اور وفاداری کا ثبوت دیتے چلے گئے۔
پیارے بھائیوا! ہم بھی عشق مصطفیٰ کا دعویٰ تو کرتے ہیں۔ لیکن ہم سے نماز نہیں پڑھی جاتی ہیں۔ ہمیں اپنی شادیاں ہندوانہ رسم و رواج اور انگریزوں کی پیروی کرتے ہوئے کرنی ہیں۔ ہمیں معاشرتی زندگی غیروں کے طریقہ پر گزارنی ہیں ۔ ہم اپنی زندگی غیروں کی طرز جینا چاہتے ہیں۔ ہم والدین، بہن بھائیوں، عزیزو اقارب کے حقوق کے معاملے میں نبوی احکامات کے بالکل خلاف چل رہے ہیں۔ سوا عشق و محبت کے دعویٰ کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ لہذا ہمیں اپنی زندگی کو اسلاف کے طرزِ عمل پر گزارنی چاہیے۔ 
فضیلت صدیق اکبر قرآن وحدیث واقوال بزرگان دین کی روشنی میں
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:- وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتقَى (پارہ 30،سورۃ اَلَّیل آیت 17)
ترجمہ:-”اور بہت جلد اس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار۔“
اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت سیدنا صدیق اکبر ہیں۔ (تفسیر خزائن العرفان پارہ30) 
امام خازن فرماتے ہیں۔ تمام مفسرین کے نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ 
(خازن، الّیل، تحت الآیۃ: ۱۹، ۴ / ۳۸۴)
اسی طرح دوسری جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:- 
وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهٖ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (پارہ24،الزمر33) 
 ترجمہ کنزالایمان:- اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں۔ امام فخرالدین رازی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی مشہور تفسیر ”تفسیر کبیر“ میں اس آیت مبارکہ کے تحت نقل کرتے ہیں۔ کہ حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:” اس آیت مبارکہ میں ”سچ لانے والے سے مراد نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے اور ” تصدیق کرنے والے سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکت ہے۔ 
 (التفسير الكبير الزمر : 33، ج 9، ص452)
اسی طرح حدیث پاک میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان بیان فرمائی گئی :-حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے تھے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ فرمایا۔ پھر گلے لگا کر آپ رضی اللہ عنہ کے منہ کو چوم لیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے ابوالحسن! میرے نزدیک ابوبکر کا وہی مقام ہے جو اللہ کے ہاں میرا مقام ہے ۔ (الرياض النضرة، ج 1، ص185)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے۔ فرماتی ہیں کہ ایک بار اللہ کے محبوب ﷺ کا سر مبارک میری گود میں تھا،اور رات روشن تھی، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں جتنی ہوں گی؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جی ہاں! وہ عمر ہیں، جن کی نیکیاں ان ستاروں جتنی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: یارسول الله ﷺ ! پھر میرے والد ماجد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نیکیاں کس درجہ میں ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمر کی تمام نیکیاں ابوبکر کی نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی کے برابر ہیں۔(مشكاة المصابيح، كتاب المناقب، الحديث:6068،ج 3،ص 349)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:”میرے بعد ابوبکر پھر عمر کی اطاعت کرو ہدایت پاجاؤ گے۔ اور ان دونوں کی اقتداء کرو کامیاب ہوجاؤ گے۔“ (تاريخ مدينة دمشق، ج 30 ، ص 226)
تین سو ساٹھ خصائل
حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: " اچھی خصلتیں تین سو ساٹھ ہیں۔ اور اللہ عزوجل جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے۔ تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرما دیتا ہے۔ اور اس کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرما دیتا ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ ارشاد فرمایا: اے ابوبکر تمہارے اندر تو ساری خصلتیں موجود ہیں ۔“
 (تاريخ مدينة دمشق، ج 30 ، ص103)
افضلیت صدیق اکبر بزبان فاروق اعظم رَضِيَ اللهُ عَنه
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر اور رسول الله ﷺ کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ (سنن الترمذی، کتاب المناقب، الحديث: 3474، ج 5، ص 372)
افضیلت صدیق اکبر بزبان شیر خدا
حضرت سیّدنا محمد بن حنفیہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے والدِ ماجد حضرت علی المرتضیٰ رضیَ اللہ عنہ سے پوچھا: رسولُ اللہﷺ کے بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ۔ (بخاری،ج2،ص522، حدیث:36717) 
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:”جو مجھے حضرت ابوبکر وعمر سے افضل کہے گا۔ تو میں اس کو مفتری کی(یعنی تہمت لگانے والے کو دی جانے والی ) سزا دوں گا۔ (تاريخ مدينة دمشق، ج 30، ص 383)
افضلیت صدیق اکبر بزبان امام اعظم
حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:” انبیاء کرام عَلَيْهِمُ الصلوۃ و السلام کے بعد تمام لوگوں سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمربن خطاب، پھر عثمان بن عفان، پھرعلی ابن ابی طالب رِضْوَانُ اللّٰهِ عَلَيْهِمْ اجمَعِين ہیں۔(شرح الفقه الأكبر،ص61)
خلافت صدیق اکبر
ابن سعد حاکم اور بیہقی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ کہ جب رسول پاک ﷺ نے وفات پائی۔ تو صحابہ کرام سعد بن عبادہ کے گھر میں جمع ہوئے۔ اور ان میں ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ پس خطباۓ انصار کھڑے ہوئے اور ان سے ایک نے کہا اے گروہ مہاجرین! رسول اللہ ﷺ جب تم سے کسی کو عامل مقرر فرماتے تھے تو ہم سے ایک کو اس کے ساتھ ملاتے تھے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس امر خلافت کے دو شخص متولی ہوں۔ ایک ہم میں سے اور ایک تم میں سے۔ (اس بات کا کہنا تھا) کہ تمام انصار نے یکے بعد دیگرے اس بات کی تائید کی۔ اس پر زید بن ثابت نے کھڑے ہو کر کہا۔ تمہیں معلوم ہے کہ رسول کریم ﷺ مہاجرین سے تھے۔ اور آپ کا خلیفہ بھی مہاجرین سے ہونا چاہئے۔ ہم تو رسول پاک ﷺ کے مددگار تھے۔ اور اب آپ کے خلیفہ کے بھی مددگار رہیں گے۔ پھر انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ یہ تمہارا صاحب ہے۔ پس حضرت عمر نے آپ کی بیعت کی۔ پھر حضرت ابوبکر منبر پر تشریف لے گئے۔ اور لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو نہ پایا۔ پس ان کو بلوا کر کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی ہو کر چاہتے ہو کہ مسلمانوں کی جماعت کو پَراگَنْدَہ کرو۔ انہوں نے کہا اے خلیفہ رسول ﷺ مجھے سرزنش نہ کیجئے ۔ پھر انہوں نے آپ سے بیعت کر لی۔ اس کے بعد پھر آپ نے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان میں حضرت علی کو نہ پایا۔ تو انہیں بلوا کر کہا تم رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور ان کے داماد ہو کر یہ چاہتے ہو کہ مسلمانوں کی جماعت کو پَراگَنْدَہ کرو۔ انہوں نے کہا۔ اے خلیفہ رسول ﷺ مجھے سرزنش نہ کیجئے۔ پھر انہوں نے بیعت کرلی۔ (تاريخ الخلفاء اردو 101)

سایۂ مصطَفٰے مایۂ اِصطَفٰے
عِزّ و نازِ خلافت پہ لاکھوں سلام

یعنی اس اَفْضَلُ الْخَلۡق بَعْدَ الرُّسُل
ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہجرت پہ لاکھوں سلام
آپ کا نکاح اور اولاد
 "صفۃ الصفوة“ کے اندر آپ کی چار شادیوں کا تذکرہ موجود ہے۔ پہلا نکاح قتیلہ بنت عبدالعزی سے ہوا۔ اور ان سے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور اسماء رضی اللہ عنھا پیدا ہوئے۔ دوسرا نکاح ام رومان بنت عامر سے فرمایا۔ ان سے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے جنم لیا۔ تیسرا نکاح اسماء بنت عمیس سے منعقد ہوا۔ ان کے بطن سے محمد پیدا ہوئے۔ چوتھا نکاح حبیبہ بنت خارجہ ابن زید سے فرمایا۔ اور ان سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنھا کی ولادت ہوئی۔
آپ کی وفات
دن کے حساب سے 21 جمادی الاخری 13 سن ہجری بمطابق 22 اگست 634 عیسوی اور رات کے حساب سے 22 جمادی الاخری بمطابق اگست پیر اور منگل کی درمیانی رات مغرب وعشاء کے درمیان آپ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ۔ وفات کے وقت آپ رَضِيَ اللهُ عنہ کی عمر 63 سال تھی۔ 

0 Comments:

MADANI DUNIYA ISLAMIC WRITE